ایسے کمرے جہاں بچے جانے سے ڈرتے ہوں وہاں دن میں بچوں کیساتھ کئی بار جائیں تاکہ ان کا ڈر ختم ہوسکے

بچوں کو ایمرجنسی لائٹ استعمال کرنے کا طریقہ بتائیں۔اکثر بڑے خود بچوں کے دلوں میں خوف بٹھا دیتے ہیں، جو بعض اوقات ساری عمر ان کے دل و دماغ میں رہتا ہے۔ معالج کے پاس جا کر ٹیکا لگوانا بھی بچوں کا عمومی خوف ہوتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ بھی عام طور پر والدین کے مخصوص جملے ہوتے ہیں مثلاً ’’تم بات نہیں مانو گے تو ٹیکا لگوا دیں گے۔‘‘اس خوف کو دور یا کم کرنے کے لیے بچے کو معالج کے پاس لے جائیں اور اسے بتائیں کہ معالج کیسے مریض کی تکلیف دور کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ بچوں کو خیالی شکلوں، سایوں یا خود ساختہ آوازوں سے ڈرانا بھی غلط ہے۔ ایسے بچے تیز آوازوں اور متحرک سائے دیکھ کر بھی خوف زدہ ہو جاتے ہیں۔ بچوں کو سزا کے طور پر خالی یا اندھیرے کمرے میں بند کرنا بھی ان کے دل و دماغ میں زندگی بھر کے لیے خوف بیٹھ جانے کا سبب بن سکتا ہے۔ بچوں کو تعمیری کاموں میں مصروف رکھیں۔ انہیں ایسی کہانیوں اور فلموں سے دور رکھیں جو ان کے دلوں میں ڈر یا خوف پیدا کریں۔ بچے ڈراؤنی کہانیاں پڑھ کر ان دیکھی شکلیں اپنے ذہنوں میں بٹھالیتے ہیں اور ڈرنے لگتے ہیں۔
ڈراؤنے قصے، حادثات کی تصویریں اور دہشت زدہ کرنے والی خبریں بھی بسا اوقات بچوں کو ہمیشہ کے لیے خوف زدہ کر دیتی ہیں۔ ایسے بچوں کا دھیان مختلف دل چسپ کھیلوں کی طرف لگائیں۔بعض بچے توجہ حاصل کرنے کے لیے بھی ڈر یا خوف کی اداکاری کرتے ہیں۔ اسی طرح بعض بچے زیادہ بہادر بننے کی کوشش میں اصل ڈر چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کچھ بچے روزمرہ کے عوامل، جیسے نہانے حتیٰ کہ جھولا جھولنے سے بھی خوف زدہ رہتے ہیں۔ اس لیے والدین کو چاہیے کہ ڈر چاہے حقیقی ہو یا غیر حقیقی، اس کا بغور جائزہ لیں اور اس کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔ ضرورت پڑنے پر معالج سے بھی مشورہ کریں، اس امر کو ہرگز نظرانداز نہ کریں، ورنہ آگے چل کر یہ ڈر بچے کا شعور متاثر بھی کر سکتا ہے اور اس کی شخصیت پر منفی اثرات مرتب کرنے کا بھی سبب بن سکتا ہے۔








