counter easy hit

بیرونی دولت پر آ ہنی ہاتھ، وزیر خزانہ کا نیا محاذ

اسحق ڈارا س ملک کے وزیر خزانہ ہیں، وہ آئینی طور پر اس بات کے مکلف ہیں کہ ملک کا خزانہ بھرا رہے، اورلبا لب بھرا رہے۔ اور اسحق ڈار نے اپنا یہ فریضہ بطریق احسن انجام دیا ہے ۔ اس وقت ملک ے زر مبادلہ کے ذخائر تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں، جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی کا ان کی پارٹی نے نے نعرہ لگایا تھا، اس پر عمل ہو چکا ہے ،عالمی مالیاتی فنڈ کو خدا حافظ کہہ دیا گیا ہے۔ٹیکس ریکوری کی حد بھی تاریخ میں سب سے زیادہ ہے اورا س سال ملک میں چھیاسٹھ فی صد ٹیکس وصولی کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔
اب اگلی بات جو وزیر خزانہ نے کی ہے، وہ ملک کے موجوہ شوریدہ سر ماحول میں بے حد اہمیت کی حامل ہے اور چونکا دینے والی بھی ہے۔ حکمرانوں کو توکرپشن کے طعنے دیئے جا رہے ہیں، عمران خان، بلاول، اور سراج الحق اٹھتے بیٹھتے وزیر اعظم ہٹاﺅ کے نعرے لگا رہے ہیں، سپریم کورٹ میں پانامہ کے کیس کی سماعت جاری ہے اورا س کی ا ٓڑ میں ٹی وی چینلز پر دن رات ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا گیا ہے۔مگر وزیر خزانہ نے جو تازہ تریں اعلان کیا ہے، وہ ایک نئے مالیاتی اور معاشی انقلاب کی بنیاد رکھ سکتا ہے،اگر وزیر خزانہ نے ماضی میں ذرا بھی کوئی جرم کیا ہوتا یا ان کے دامن پر کوئی دھبہ ہوتا یا وہ منی لانڈرنگ میںملوث ہوتے تو وہ اوکھلی میں کیوں سر دیتے اور کیوں کہتے کہ جن پاکستانیوںنے اپنی دولت بیرون ملک چھپا رکھی ہے، اس کی پائی پائی واپس لائی جائے گی۔ وزیر خزانہ کے بارے میں ایک ہی شور مچایا جاتا ہے کہ انہوںنے ایک اقرار نامہ لکھ کر مشرف کو دیا تھا جس میں یہ تسلیم کیا گیا تھا کہ وہ منی لانڈرنگ کرتے رہے ہیں مگر ایسا بیان تو پاکستان کی پولیس کسی چڑیاکو بھی پکڑ کر لکھوا سکتی ہے، اسحق ڈار یہ کہہ چکے ہیں کہ ان پر جبر کر کے یہ بیان لکھوایا گیا، احسن ا قبال تو کہتے ہیں کہ مشرف دور میں انہیں پکڑا گیا تو ان کے کانوں میں گرم پانی انڈیلا جاتا تھا۔ پرویز رشید پر جو تشدد ہوا،ا اس نے انہیں ذہنی مریض بنا دیاا ور نیویارک میں انہیں ریکوری میں مہینوں لگ گئے،خود نوازشریف کے بارے میں کسی کو علم نہیں تھا کہ وہ کہاں ہیں۔انہیں عدالت میں پیشی کے لئے ہوائی جہاز سے کراچی لے جایا گیا تو ان کے ہاتھ پاﺅں جہاز کی سیٹوں سے آہنی بیڑیوں کے ساتھ جکڑ دیئے گئے تھے۔انہیں شروع میں پکڑا گیا تو مہینوں تک کسی کو علم نہیں تھا کہ وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں ، اٹک قلعے میں سانپوں اور بچھوﺅں سے بھری غلیظ کوٹھڑیوں میں انہیں بند کیا گیا تو انہیں ساتھ کے کمرے سے حسین نواز کی تلاوت قرآن کی آواز سے پتہ چلا کہ ان کا لخت جگر زندہ ہے،اس جبر کے ماحول میں لکھوائی گئی کسی تحریر کی کیا وقعت ہو سکتی ہے۔اس کی حقیقت اس وقت کھل کر سا منے ا ٓ گئی جب انہیں عدالت نے با عزت بری کر دیا۔اس فیصلے کے بعد بھی اسحق ڈ ار کے خلاف ا قرارنامے کی بات اچھالی جائے تو اسے ذہنی پستی کے زمرے میں ہی شمار کیا جائے گا۔
پاکستانیوں کی جو دولت بیرون ملک پڑی ہے، وہ حد و شمار سے باہر ہے۔ ماڈل ا یان علی کا کیس تو بڑی معمولی بات ہے، اس ملک سے روزانہ کروڑوں روپے غیر قانونی طریقے سے باہر بھیج دیئے جاتے ہیں شور تو شریف فیملی کے فلیٹوں کا بہت ہے مگر کونسا ایسا صاحب حیثیت پاکستانی ہے جس کی جائیدا باہر کسی ملک میںنہیں اور کیاپتہ کہ ا س کے لئے پیسہ جائز طریقے سے بھیجا گیا یا ناجائز طریقے سے۔اب تو ماشااللہ ہم میڈیا والوں کے بھی لندن ، نیویارک میں فیلٹوں کے قصے عام ہو رہے ہیں اور یہ ہم ہی ہیں جوسیاست دانوں، بیورو کریٹو ں اور جرنیلوںکے فیلٹوں کے قصے اچھالتے رہتے ہیں۔ ذرا ہمیں منہ کھولنے سے پہلے اپنے گریبان میں بھی جھانک لینا چاہئے۔
اسحق ڈار نے پاکستانیوں کی بیرون ملک خفیہ دولت کی واپسی کی بات ایسے ہی نہیں کہہ دی،ا سکے لئے وہ کئی بیرونی ملکوں سے معاہدے کر چکے ہیں ، اس معاہدے سے پہلے، کوئی ملک حکومت پاکستان کے کہنے پر کسی کے اثاثوں کی تفصیلات دینے کا پابند نہیں تھا مگر اب ایسا نہیں ہو سکے گا اور جس کسی کے خلاف شبہ پیدا ہوگا کہ اس نے باہر دولت چھپا رکھی ہے تو متعلقہ غیر ملکی بنک اس کی تفصیلات فراہم کرنے کا پابند ہو گا۔اور یوں وزیر خزانہ ان مچھلیوں کو جال میں ایک ایک کر کے پکڑے تے چلے جائیں گے، اب یہ قدم وہی اٹھا سکتا ہے جس کا اپنا دامن صاف ہو۔ میں ان کالموں میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ اسحق ڈار کے بارے میں یہ الزام کہ انہوں نے اسٹیٹ بنک کے موجودہ ڈپٹی گورنر سعید احمد کے ذریعے منی لانڈرنگ کی تھی تو میںنے تب بھی کہاا ور آج بھی کہتا ہوں کہ سعید احمد ک پاک دامنی کی قسم میں خانہ کعبہ کی چوکھٹ پکڑ کر کھا سکتا ہوں ۔اب وزیر خزانہ کے تازہ اقدامات کے اعلان سے مجھے ایک گونہ تسلی ہو گئی ہے کہ میں نے قسم کھانے کی بات یونہی نہیں کہہ دی تھی۔ اس شخص کی دال میں ذرا بھی کالا ہوتا تو وہ دوسروں کے پیچھے لٹھ لے کر پڑنے کاا علان نہیں کر سکتا تھا۔
میری ایک تفصیلی ملاقات لاہور کے ڈائریکٹر ای آ ٓئی اے ڈاکٹر عثمان سے ہوئی، وہ بھی حیران تھے کہ چین کہتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ بارہ ارب کی تجارت ہے مگر ہمارے اعدا دوشمار بتاتے ہیں کہ یہ تجارت صرف دو ارب کی ہے، ا س کامطلب یہ ہے کہ باقی پیسہ انڈر انوائسنگ کے ذریعے ہمارے درآمد کنندگان ہضم کر رہے ہیں ۔ اورا س پر ہمیں جو ٹیکس دینا چاہئے تھا وہ بھی بچا رہے ہیں۔ گویا ملکی خزانے کو دہرا نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ مجھے وزیر خزانہ نے خود بتایا ہے کہ ا ب چین کے ساتھ ایسامعاہدہ ہو گیا ہے کہ وہ دوطرفہ تجارت کی تفصیلات حکومت پاکستان کے ساتھ شیئر کرے گا تاکہ ہمیں پتہ چل سکے کہ چین سے کیا سامان آ رہا ہے ا ور کس قیمت پر سودا ہو اہے، اس معاہدے کے بعد انڈرانوائسنگ کے امکانات معدوم ہو گئے ہیں ، پھر بھی ڈبل چیک کے لئے ہم نے بعض معمول کی درا ٓمدی چیزوں کے نرخ مقرر کر دیئے ہیں ، اب کوئی شخص کہے کہ اسنے فلاں مشین دس روپے کی خریدی ہے تو ہم اس کی بات ماننے سے انکار کر سکتے ہیں اورا س پر اپنی مقرر کردہ قیمت کے حساب سے ڈیوٹی وصول کریں گے۔ اب کوئی ٹیکس چوری کر کے دکھائے۔ایک زمانے میں جب ڈالر بہت اوپر چڑھ گیا تھا تو ڈار صاحب نے کہا وہ اسے چھیانوے روپے پر لا کر دم لیں گے اور انہوںنے یہ کر دکھایا۔اب تو عالمی کرنسی مارکیٹوںمیں ویسے ہی بھونچال کی سی کیفیت ہے، کسی کرنسی کے بارے میں کوئی پیش گوئی کرنا ممکن نہیں، ٹرمپ کے آنے سے تو سب نے دیکھا کہ کرنسی اور حصص کی مارکیٹیں کریش کر گئی تھیں۔
وزیر خزانہ نے پچھلے ستمبر میں پیرس جا کر او ای سی ڈی کے جس معاہدے پر دستخط کئے، اس نے پاکستانیوں کی بیرون ملک کمیشن خوری کا رستہ بند کر دیا ہے،ا ور ابھی وہ ایک نئے معاہدے پر دن رات کام کر رہے ہیں ، اس پر دستخطوں کے بعد ٹیکس چوری کا رستہ بند ہو جائے گا، یہ مسئلہ تفصیلی بحث کا متقاضی ہے،ا س لئے ادھار رہا!

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website