
بچپن کا قصہ یاد آیا تو ایک خوفناک حد تک بارعب زمیندار اور انگریز حکومت کا خطاب یافتہ وفادار چوہدری یاد آگیا، جو انگریزوں کے دور میں اس علاقے کا متکبر حکمران تھا۔ تھانیدار بھی اس کی مرضی کا پابند ہوتا تھا۔ میں نے بزرگوں سے اس کے رعب داب اور جبر کی کہانیاں سنیں، جن میں یہ بات بھی شامل تھی کہ جب چوہدری ملازمین کے ساتھ اپنے وسیع وعریض دارے میں بیٹھا ہوتا تو وہاں چڑی بھی پر نہ مارتی اور لوگ ڈر کے مارے اس سڑک سے گزرتے نہیں تھے۔ اپنے ایک بزرگ سے ایک ا یسا واقعہ بھی سنا جو ذہن نشین ہو گیا۔ دوسری عالمی جنگ جاری تھی، انگریز حکمرانوں کو اپنی وسیع سلطنت(جس میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا) کی حفاظت اور بقا کیلئے نوجوان خون کی ضرورت تھی، چنانچہ انگریز حکمرانوں نے اپنے ہرکاروں کو متحرک کیا اور فوج میں بھرتی کیلئے افسران بھیجے۔ میرے اس بزرگ نے بتایا کہ چوہدری کے وسیع لان میں سینکڑوں کی تعداد میں جوان بیٹھے ہوئے تھے اور انگریز فوجی افسر رولز کے مطابق بھرتی کے عمل میں مصروف تھا۔ اس بزرگ نے ایک شناسا نوجوان سے پوچھا کہ کیا تم اپنی مرضی سے فوج میں بھرتی ہورہے ہو۔ وہ نوجوان خوف کے مارے بول نہ سکا اور اپنی پشت سے قمیص ہٹا دی۔ اس کی پشت پر چھڑیوں کی مار کے نشانات پھیلے ہوئے تھے۔ ہوا یوں کہ جب خان بہادر صاحب کو انگریز کا حکم ملا تو وہ اپنے سپاہی نما کارندوں کے ساتھ گھوڑوں پر سوار ہوئے اور دیہاتوں کا رخ کیا۔ انہیں جہاں جہاں گلیوں، گھروں یا کھیتوں میں نوجوان نظر آئے، اُنہیں وہ جانوروں کی مانند ہانک کر لے آئے۔ انگریز حکمران اپنے وفاداروں کی قدر کرتا تھا اور انہیں خدمات کے عوض مختلف طریقوں سے نوازتا بھی تھا۔ علاقائی حکمرانی بذات خود ایک نوازش تھی، جس کی لذت آمرانہ عادات اور متکبر مزاج کو جنم دیتی تھی۔ میرے علاقے کے بہت سے گھبرو کڑیل جوان جنگ عظیم کا ایندھن بن گئے، میں نے بچپن میں بہت سے ایسے سابق فوجی دیکھے جنہیں جنگ عظیم نے ذہنی امراض میں مبتلا کر دیا تھا۔ ایک ایسا ریٹائرڈ سپاہی بھی دیکھا جو گھر کی کھڑکی میں بیٹھا ہر گزرنے والے کو لیفٹ رائٹ کہتا رہتا تھا۔
وقت تیزی سے گزر جاتا ہے اور زندگی پہلو بدلتی رہتی ہے۔ پاکستان معرضِ وجود میں آگیا۔ انگریز چلے گئے، آہستہ آہستہ ملکی فضا بدلتی چلی گئی اور خوف کے سائے مٹنے لگے۔ لوگوں میں آزادی کے احساس نے دیرینہ خوف کی زنجیریں توڑنا شروع کردیں اور زبانوں پہ لگے قفل ٹوٹ کر گرنے لگے۔ ہمارے علاقے کا حکمران چوہدری بوڑھا ہو گیا، اس کا رعب و بدبہ رخصت ہو گیا۔ اسے مختلف بیماریوں نے گھیر لیا اور رہی سہی کسر فالج کے حملے نے پوری کردی۔ ہم چھوٹے چھوٹے لڑکے اور پرائمری اسکول کے طالبعلم ماضی کے خوف سے بےنیاز چوہدری کے وسیع گرائونڈ میں کھیلا کرتے تھے۔ چوہدری کے نوکر اسے ایک پہیوں والے صوفے پر بٹھا کر گھر سے دارے میں لے آتے، جہاں وہ بےبسی اور لاغری کی تصویر بنا برآمدے میں بیٹھا رہتا، پھر ہم نے کئی بار دیکھا کہ چوہدری کے وہی نوکر جو اس کے سامنے آنکھیں جھکائے خوف کے مارے بت بنے کھڑے رہتے تھے، اب کبھی کبھی چوہدری کے چہرے پر چانٹے بھی رسید کردیتے تھے، غصے سے ایک آدھ گالی بھی بلاجھجک دے دیتے تھے۔ چشم بینا ہو تو انسان قدم قدم پر عبرت سمیٹتا اور سبق حاصل کرتا جاتا ہے۔ میں نے اپنی نگاہوں سے تکبر، رعونت اور رعب ودبدبہ کو چکنا چور اور بےبسی میں بدلتے دیکھا۔ اس لئے جب میں حکمرانوں، بیوروکریٹوں، روساء، شہرت کے تکبر میں مبتلا دانشوروں اور میڈیا حضرات کو دیکھتا ہوں تو مجھے چوہدری کا وہ متکبر رخسار یاد آجاتا ہے، جس پر اس کے ملازم چپت رسید کرتے تھے، بالآخر تکبر کا کچھ ایسا ہی انجام ہوتا ہے۔








