counter easy hit

شمالی کوریا تحمل کا مظاہرہ کرے

شمالی کوریا اور امریکا کے درمیان دھونس اور جوابی دھونس کی جنگ اب خطرے کے اس نشان تک پہنچ گئی ہے جہاں سے حقیقی جنگ کی سرحدیں شروع ہوتی ہیں۔ شمالی کوریا کی طرف سے ہائیڈروجن بم کے کامیاب تجربے کے بعد تو امریکا سمیت سارے مغربی ملکوں میں ایک زلزلہ سا آگیا ہے اور تو اور روس اور چین بھی شمالی کوریا کے ایٹمی اور ہائیڈروجن تجربات کی مخالفت کر رہے ہیں۔

روس اور چین اپنی نظریاتی سرحدیں عبور کر جانے کے باوجود ہمیشہ شمالی کوریا کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ شمالی کوریا اور کیوبا ان ملکوں میں شامل ہیں جو اب تک سوشلزم کی رسی کو تھامے ہوئے ہیں۔ اس پس منظر میں چین اور روس کی طرف سے شمالی کوریا کی مسلسل حمایت حیران کن ہے لیکن ایٹمی جنگ کے حقیقی خطرے نے ہی چین اور روس کو مجبور کردیا ہے کہ وہ شمالی کوریا کو صبر و تحمل کے مشورے دے رہے ہیں۔

لگاتار ایٹمی تجربات کی وجہ سے دنیا بھر میں یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ شمالی کوریا جارحانہ پالیسی پر عمل پیرا ہے لیکن چین اور روس سمیت دنیا بھر کے ملک اس حقیقت کو نظرانداز کر رہے ہیں کہ امریکا نے جنوبی کوریا کو اپنا ایک بہت بڑا فوجی اڈہ بنادیا ہے جہاں ایٹمی ہتھیاروں کا ذخیرہ بھی موجود ہے اور ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کی مہارت رکھنے والی امریکی فوج بھی بڑی تعداد میں موجود ہے اور شمالی کوریا کو مشتعل کرنے کے لیے دونوں ملک آئے دن مشترکہ فوجی مشقیں بھی کرتے رہتے ہیں۔

امریکا کی ان ریشہ دوانیوں سے شمالی کوریا اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھنے میں حق بجانب ہے۔ جب تک شمالی کوریا غیر ایٹمی ملک تھا، امریکا مطمئن تھا کہ شمالی کوریا جنوبی کوریا اور امریکا کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن شمالی کوریا کی طرف سے کامیاب ایٹمی اور ہائیڈروجن تجربات کے بعد اب امریکا کو یہ احساس ہو رہا ہے کہ شمالی کوریا حقیقی خطرہ بن گیا ہے۔

ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری ایک ایسا بین الاقوامی جرم ہے جسے انسانیت کبھی معاف نہیں کرسکتی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کرہ ارض پر ایٹمی ہتھیار بنانے کا پہلا جرم کس نے کیا یہی نہیں بلکہ اس دہشت ناک بم کو استعمال کرنے میں کس ملک نے پہل کی؟ ان دونوں سوالوں کے جواب ہی میں عالمی برادری ایٹمی ہتھیار بنانے کے گھناؤنے جرم کی مرتکب ہوئی ہے۔

بلاشبہ تجربات ایٹمی ہوں یا ہائیڈروجن یہ کرہ ارض پر جانداروں کی بقا کے لیے ایک دہشت ناک خطرہ ہیں لیکن جرم سے زیادہ سنگین جرم، جرم کی ترغیب ہوتا ہے۔شمالی کوریا کو ایٹمی ملک بنانے سے روکنے کا ایک مثبت طریقہ یہ تھا کہ امریکا جنوبی کوریا سے ایٹمی ذخیرے اور ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے میں مہارت رکھنے والی فوج تو ہٹا لیتا لیکن امریکا نے اس معروضی اور مثبت طریقے کو چھوڑ کر اپنے پٹھو جنوبی کوریا کو اور مضبوط بنانے میں لگا رہا جس کا لازمی نتیجہ وہی نکلا جو نکلنا تھا یعنی شمالی کوریا بھی یہ خطرناک ہتھیار بنانے میں کامیاب ہوگیا۔

1945 میں معمولی طاقت کے ایٹم بم سے ہونے والی تباہی کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ امریکا نہ صرف خود ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کو روک دیتا بلکہ عالمی برادری کو ایٹم بم کے استعمال کے نقصانات سے آگاہ کرکے دنیا سے ایٹمی اسلحے کی تیاری کے کلچر ہی کو ختم کردیتا لیکن دوسری عالمی جنگ کے اختتام کے بعد جیسے جیسے سوشلسٹ بلاک مضبوط ہوتا گیا، امریکا اور اس کے اتحادیوں نے تیزی سے ایٹمی ذخائر میں اضافہ شروع کردیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سوشلسٹ بلاک بھی ایٹمی ذخیروں کا مالک بن گیا۔ جس کی پوری ذمے داری امریکا اور اس کے اتحادیوں پر ہی عائد ہوتی ہے۔

چین اور روس بجا طور پر شمالی کوریا کے ایٹمی تجربات کی مخالفت کر رہے ہیں کیونکہ اس مقابلے بازی میں ایٹمی جنگ کے خطرات پنہاں ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب تک شمالی کوریا کو جنوبی کوریا میں موجود امریکا کے ایٹمی ذخیرے سے خطرہ لاحق رہے گا۔

کیا شمالی کوریا ایٹمی تجربات سے دست کش ہوجائے گا؟ ہرگز نہیں۔ چین اور روس اب سوشلسٹ ملک نہیں رہے بلکہ انھوں نے سرمایہ دارانہ نظام معیشت اپنا لیا ہے اس تبدیلی سے دونوں ملک شمالی کوریا کو ایٹمی تجربات روکنے کی اخلاقی اور نظریاتی طاقت سے محروم ہوگئے ہیں لیکن اس حقیقت کے باوجود ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنا دنیا کے تمام ملکوں کی اخلاقی اور انسانی ذمے داری ہے۔ اس کا ایک مثبت اور معروضی طریقہ یہ تھا کہ شمالی کوریا کو ایٹمی تجربات سے روکنے کے بجائے شمالی کوریا کے ان خدشات کو ختم کرنے کی کوشش کی جاتی جو جوہری جنوبی کوریا اور امریکا کی طرف سے اسے لاحق ہیں۔ یعنی جنوبی کوریا سے ایٹمی ہتھیار ہٹا لیے جاتے اگر اس معروضی طریقے پر عمل کیا جاتا تو شمالی کوریا اخلاقی طور پر مجبور ہوجاتا کہ ایٹمی تجربات سے دست بردار ہوجائے۔

امریکا کی یہ روایت رہی ہے کہ اس کی نظر ہمیشہ اپنے مفادات کے تحفظ پر رہتی ہے، اسی حوالے سے یہاں ہم ایران کی مثال پیش کرسکتے ہیں، امریکا نے مشرق وسطیٰ میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اسرائیل کو علاقے کا دادا بناکر رکھا ہے اور روایتی ہتھیار کی بھرمار کے ساتھ ساتھ اسے ایٹمی ہتھیار سے بھی لیس کردیا ہے۔

اسرائیل اس حقیقت سے واقف ہے کہ عربوں کی امریکا نواز حکومتیں اس کے لیے خطرہ نہیں بنی خطرہ صرف ایران سے ہے اور ایران اپنی سلامتی کے لیے اسرائیل کو سب سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے جس کا فطری نتیجہ یہ ہے کہ ایران بھی جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں مصروف رہا۔ ایران کی اس کوشش سے اسرائیل اس قدر خوفزدہ ہوا کہ اس نے اپنے سرپرستوں کو اس خطرے سے نہ صرف آگاہ کیا بلکہ اپنے سرپرستوں کو مجبور کردیا کہ وہ ہر قیمت پر ایران کو ایٹمی ملک بننے سے روکیں۔

سو امریکا اور اس کے اتحادیوں نے ایران پر ایسی سخت اقتصادی پابندیاں عائد کردیں کہ ایران کی معیشت تباہی کے کنارے پہنچ گئی اور ایران کو اپنا ایٹمی پروگرام رول بیک کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ ایران کو ایٹمی ایران بننے سے روکنے کا مثبت طریقہ یہ تھا کہ اسرائیل کو غیر ایٹمی ملک بنادیا جاتا اور اس کے سلامتی کے خطرے کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی طرف سے ضمانت مہیا کی جاتی۔

سب سے خطرناک حقیقت ایٹمی جنگ ہے۔ شمالی کوریا کو بھی تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور چین اور روس کو شمالی کوریا کے تجربات کی مخالفت کے ساتھ ساتھ امریکا پر زور دینا چاہیے کہ وہ جنوبی کوریا سے ایٹمی ہتھیار اور اپنی فوج کو نکال لے۔