counter easy hit

بدلتا امریکا اور پاکستان

امریکی دھمکی کے بعد ہماری وزارتِ خارجہ کے کار پردازوں کو بھی کچھ ہوش آیا ہے اور انھوں نے اپنی پرانی فائلوں پر مدتوں سے جمی گرد جھاڑ کر ا نہیں نئی فائلوں میں از سر نو ترتیب دینا شروع کر دیا ہے کہ وزارت خارجہ کے بابو ایک خاص ذہن کے مالک ہوتے ہیں اور صرف اسی صورت میں کام پر راضی ہوتے یا دوسرے لفظوں میں کام کرناشروع کرتے ہیں جب ان کو اوپر سے اشارہ ملتا ہے اور یہ اشارہ تب ہی ملتا ہے جب حکومت اس بات پر آمادہ ہو کہ ملک کو دنیا کے دوسرے ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو بڑھانا ہے یا ان میں مزید بہتری لانی ہے۔

ہمارے موجودہ حالات اس بات کا بڑی مدت سے تقاضہ کر رہے ہیں کہ ہماری ایک خود مختار جامع اور واضح خارجہ پالیسی ہو جو صرف اور صرف ہمارے اپنے مفادات کا ہی تحفظ کرے اور ہم دنیا سے جڑے رہیں لیکن ہم نے اس طرف توجہ کم ہی دی اور بس وقت گزارتے رہے یا دوسرے لفظوں میں کاٹتے رہے لیکن کب تک ہم کسی منصوبہ بندی کے بغیر دنیا سے جڑے رہ سکتے ہیں اور اس کا نتیجہ سب نے دیکھ لیا کہ جیسے ہی امریکا بہادر نے یہ دیکھا کہ اب پاکستان اس کے مزید مطالبوں کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتا تو وہ دھمکیاں دینے پر اتر آیا اور اپنا مطلب اب ان دھمکیوں سے نکالنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔

اس خطہ میں کسی حد تک فاتح امریکا نے اپنی کسی مصلحت کے تحت گذشتہ کئی ماہ سے اپنی جارحانہ فوجی کارروائیوں میں کسی حد تک وقفہ کر رکھا ہے، اس دوران حکومت پاکستان اور امریکا میںوقت گزاری کے لیے کچھ گفت وشنید بھی جاری رہی لیکن سب بلا وجہ اور بے سود کیونکہ ہونا تو وہی تھا جو امریکا کہتا ہے ۔ انسانی تعلقات کا یہ بہت قدیمی اصول ہے کہ طاقت ور کی بات چلتی ہے اور امریکا ہر اعتبار سے ایک طاقت ور ملک ہے جو کہ دنیا بھر میں ابھی تک اپنی بات منوا رہا ہے۔

امریکا کے اس جارحانہ رویہ کے بعد ہمارے حکومت کے ہوش کے ناخن کچھ تیز ہو گئے اور اس نے کل وقتی وزیر خارجہ کے تقرر کے بعد اپنی بات دنیا بھر میں اور خاص طور پر اپنے ہمسایہ ممالک جن کے ساتھ ہمارا ہر مفاد وابستہ ہے تک پہنچانے کے لیے دوڑ دھوپ شروع کر دی جس کے ابھی تک واضح نتائج تو سامنے نہیں آسکے لیکن اچھے نتائج کی توقع بجا طور پر ضرور کی جارہی ہے۔

پاکستان کو سب سے بڑا دھچکہ تو کچھ دن پہلے پانچ بڑے ملکوں کی ایک کانفرنس میں ہی لگ گیا جب ہمارے دیرینہ اور اب کاروباری دوست چین نے بھی کانفرنس میں یہ کہہ دیا کہ پاکستان کو دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ختم کرنا ہوں گی ۔ چین کی جانب سے کانفرنس کے اعلامیہ میں پاکستان کے خلاف بات کی آمادگی نے حکو مت کے ایوانوں میں زلزلہ کی سی کیفیت پیدا کر دی کہ ہم کبھی بھی اس قسم کی بات کی توقع چین کی جانب سے نہیں کر سکتے اور خاص طور پر آج کل جس طرح چین کا کاروباری مفاد ہمارے ساتھ وابستہ ہے اور وہ پاکستان کے راستے اپنی مصنوعات کو دنیا بھر کی منڈیوں میں آسان اور سستی گزر گاہ کے ذریعے پہنچانے کے لیے شاہراہ ریشم کے بعد اسی طرح کی ایک اور شاہراہ تعمیر کر رہا ہے۔

بہرحال ہر ملک کے اپنے حالات اور مفادات ہوتے ہیں اور وہ صرف کسی ایک ملک کی خوشنودی کے لیے ہی اپنے مفادات کو ٹھیس نہیں پہنچاتا شایداسی بات مدنظر رکھتے ہوئے چین نے بھی پاکستان کے خلاف اعلامیہ پر آمادگی ظاہر کر دی اور بروقت کر دی کہ ہمیں بھی اس کے بعد ہی ہوش آیا کہ ہم اپنی کمزور پالیسیوں کی وجہ سے دنیا میں تنہائی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں ۔

ہمارے وزیر خارجہ ان دنوں ہمسایہ ممالک کے طوفانی دورے کر رہے ہیں اور پاکستان کے ہمسایوں کو اپنے موقف سے آگاہ اور ان کی حمایت حاصل کرنے کی بھر پور کوشش کر رہے ہیں تا کہ بھنور میں ہچکولے کھاتی کشتی کو کنارے لگایا جا سکے ان کے دوروں کے مثبت نتائج بھی سامنے آنا شروع ہو چکے ہیں اور اب چین نے ہمارے موقف کو نہ صرف تسلیم کیا ہے بلکہ پاکستان کے ساتھ اپنے اپنے مضبوط تعلقات کا ایک دفعہ پھر اعادہ کرتے ہوئے عالمی برادری کو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستانی کوششوں کا اعتراف کرنے بھی کہا ہے، اس کے ساتھ انھوں نے پاکستان کی خودمختاری اور سالمیت کے تحفظ کے لیے اپنے ’’آہنی بھائی‘‘ کی بھر پور حمایت کا یقین بھی دلایا ہے۔

انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر پاکستان اور افغانستان کے درمیان کوئی غلط فہمیاں ہیں تو وہ ان کو دور کرنے میں بھی اپنا بھر پور کردار اداکرنے کو تیار ہیں۔ چین کی جانب سے یہ تازہ بیان پاکستان کے لیے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہے اورجو دشمن پہلے کانفرنس کے اعلامیہ پر شادیانے بجا رہے تھے ان کے لیے یہ وارننگ بھی ہے کہ چین ہمیشہ کی طرح پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔

اسی طرح کا ایک اور بیان امریکی ڈیموکریٹ رکن بریڈ شرمین کی جانب سے بھی آیا ہے کہ امریکا کو طالبان کے خلاف پاکستان کی ضرورت ہے اور افغانستان میں بھارتی اثر وسروخ بڑھنے سے پاکستان کی تشویش بھی بڑھ رہی ہے جس سے نہ صرف پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کشیدگی کی جانب بڑھ رہے ہیں بلکہ اس سے خطہ میں بے یقینی کی کیفیت بھی پیدا ہو رہی ہے جو کسی کے حق میں اچھی نہیں ہے ۔

پاکستان کی عالمی تنہائی میں مزید کمی کرتے ہوئے ترکی کے صدر جناب رجب طیب اردگان بھی ہمارے مدد کو آئے ہیں اور انھوں نے بھی ہمارے صدر مملکت سے ترکی میں او آئی سی کے اجلاس میں ہونے والی ملاقات میں کہا ہے کہ پاکستان کے بغیر افغان مسئلہ کا حل ممکن نہیں اور دہشت گردی کے خلاف اور علاقائی امن کے لیے پاکستانی خدمات کی قدر کرنی چاہیے ۔

پاکستان کی جانب سے دنیا کی بڑی طاقتوں تک اپنا واضح موقف پہنچانے کے لیے کی جانے والی کوششوں نے رنگ دکھانا شروع کر دیا ہے اور مختلف عالمی لیڈروں نے امریکا کے پاکستان مخالف موقف کو رد کر دیا ہے جس کے اثرات ظاہر ہو رہے ہیں۔

اب دیکھیں حالات کس رخ پر جاتے ہیں دونوں ممالک یعنی پاکستان اور امریکا اپنے اپنے موقف پر قائم ہیں، امریکا اپنی طاقت میں اندھا ہے اور جب کہ ہم بھی ایٹمی ملک ہونے کے علاوہ اپنے طاقتور دوست ممالک کے بل بوتے پر اپنا جاندار موقف امریکا تک پہنچا رہے ہیں ۔ خدا کرے خیریت رہے اور دنیا ہمارے موقف سے اتفاق کرے ورنہ اس خطے کے حالات کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کیا رخ اختیار کریں گے۔