counter easy hit

جب تک روہنگیا تک رسائی نہ ہو تب تک

مجھے کامل احساس ہے کہ پاکستانی حکومت ، سیاسی جماعتیں، فلاحی تنظیمیں اور میڈیا اینکرز مظلوم روہنگیا مسلمانوں کی مدد کے لیے کس قدر بے تاب ہیں۔میڈیا پر مذمتی بیانات کے ساتھ ساتھ احتجاجی جلوس بھی نکل رہے ہیں۔امدادی اشیا بھی اکھٹی ہو رہی ہیں اور بہت سے حساس لوگ ، تنظیمیں اور صحافی تو متاثرین تک پہنچنے کے لیے انتھک کوششیں بھی کر رہے ہیں۔

یہ آوازیں بھی اٹھ رہی ہیں کہ اگر عالمِ اسلام روہنگیا پر ہونے والے مظالم پر بے حس ہے اور اوآ ئی سی جیسے ادارے سوائے ’’ اوہ آئی سی‘‘ کے کچھ بھی نہیں کر پا رہے تو پھر پاکستانی حکومت ہی غیرت پکڑے اور جتنے بے سہارا روہنیگیا پاکستان آنا چاہتے ہیں انھیں لائے یا لانے دے یا آنے دے۔

بلاشبہ انسانیت بالخصوص مظلوم مسلمانیت کے لیے اسلامی بھائی چارے کے جذبے سے لبالب یہ قومی تڑپ قابلِ قدر ہے اور سب کو ایک دوسرے کے بارے میں ایسے ہی سوچنا چاہیے۔لیکن جب تک روہنگیاز کی مدد کے راستے میں حائل رکاوٹیں کم یا دور نہیں ہو جاتیں تب تک ہاتھ پر  ہاتھ دھرے بیٹھنے کے بجائے دیگر مظلوم مسلمانوں پر بھی توجہ دینے میں قومی مضائقہ نہیں۔آپ کی آسانی کے لیے میں کچھ جگہوں کی نشاندہی کرنے پر تیار ہوں۔

مثلاً اس وقت عراق کا دوسرا بڑا شہر موصل داعش اور عراقی افواج کی جنگ کے بعد سے ایک بڑا کھنڈر ہے۔ موصل کے آٹھ میں سے چھ ٹاؤن مکمل ملبے کا ڈھیر ہیں۔ نوے فیصد خاندانوں کا کوئی نہ کوئی مر گیا ہے۔داعش کے قبضے سے پہلے موصل کی آبادی دو ملین کے لگ بھگ تھی۔اس وقت ساڑھے چھ لاکھ ہے۔نو لاکھ دربدر اور ساڑھے چار لاکھ کے قریب امدادی کیمپوں میں ہیں۔

اہلِ موصل کو ہر بنیادی شے فوری درکارہے۔جو بچے کھنڈرات میں یا کیمپوں میں پل رہے ہیں ان میں سے اکثر تعلیم و صحت و چھت  کے علاوہ قلتِ نیند کا بھی شکار ہیں۔وہ اس خوف سے نہیں سو پاتے کہ کہیں دوبارہ قتلِ عام نہ شروع ہو جائے یا ان کا کوئی عزیز ان کی آنکھوں کے سامنے نہ مار دیا جائے۔لہذا دیگر کے علاوہ ماہرینِ نفسیات کی بھی بڑی تعداد میں فوری ضرورت ہے۔

موصل پچھلے ایک ماہ سے کھل چکا ہے۔ پی آئی اے کی تین ہفتہ وار پروازیں نجف جاتی ہیں۔وہاں سے زمینی راستے سے باآسانی تقریباً سات گھنٹے میں موصل پہنچا جا سکتا ہے۔لہذا جو درد مند امداد بھیجنا یا خود جانا چاہیں ان کے لیے میدان ِ انسانیت لق و دق ہے۔

موصل سے سات سو پینسٹھ کلو میٹر پرے شامی سرحد ہے۔مارچ دو ہزار گیارہ تک شام کی آبادی انیس ملین تھی۔ آج ساڑھے تیرہ ملین ہے۔کیونکہ تقریباً چار لاکھ ستر ہزار شہری جنگ کا نوالہ بن گئے۔لگ بھگ پانچ ملین ملک سے بھاگ گئے اور چھ اعشاریہ تین ملین ملک کے اندر ہی دربدر ہیں۔یوں سمجھئے کہ ملک کی آدھی آبادی پناہ گزینوں میں تبدیل ہو چکی ہے۔

جنگ سے قبل شام کی ایک تہائی آبادی خطِ غربت سے نیچے تھی، آج اسی فیصد آبادی خطِ غربت تلے ہے۔ آدھے اسپتال اور ایک تہائی اسکول ملبہ ہو چکے ہیں۔ نصف شامی بچے اسکول سے باہر ہیں۔ پچانوے فیصد آبادی کو صحت کا مسئلہ درپیش ہے۔اس کا اندازہ یوں لگائیے کہ دو ہزار گیارہ میں شام پولیو فری ملک تھا۔آج اس سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران پولیو کے سترہ کیسزدریافت ہو چکے ہیں۔

امدادی تنظیموں اور کارکنوں کو میانمار کی طرح شامی ویزہ یا اجازت ملنے میں بھی خاصی دشواریاں درپیش ہیں۔ مگر مدد کرنے والے اپنی ذمے داری پر لبنان ، ترکی یا اردن کے راستے متاثرہ افراد تک مقامی رضاکاروں کے تعاون سے بہرحال پہنچ سکتے ہیں۔اگر کوئی خطرہ مول نہ لینا چاہے تو بھی ملک میں داخل ہوئے بغیر ہمسائیہ ممالک پہنچ کر شامیوں کی مدد کر سکتا ہے۔

ترکی میں اس وقت تین ملین ، لبنان میں ایک ملین ، اردن میں چھ لاکھ ساٹھ ہزار ، عراق میں دو لاکھ بیالیس ہزار اور مصر میں ایک لاکھ بائیس ہزار شامی پناہ گزین کیمپوں میں پڑے ہیں۔ اب تک صرف اکتیس ہزار ہی وطن واپس لوٹ سکے ہیں۔لہذا ہر وہ بنیادی شے جس کی آپ کو ضرورت ہے شامیوں کو بھی ضرورت ہے۔

اور اگر آپ شام سے بھی زیادہ مظلوم مسلمانوں کی مدد کے خواہش مند ہیں تو پھر یمن آپ کی توجہ کا منتظر ہے۔ مارچ دو ہزار پندرہ میں جزیرہ نما عرب کے اس غریب ترین ملک کی آبادی ستائیس ملین تھی۔آج بھی لگ بھگ اتنی ہے مگر پچھلے ڈھائی برس کی خانہ جنگی اور سعودی و اماراتی قیادت میں خلیجی اتحاد کی فضائی کارروائیوں کے سبب انیس ملین یعنی پچھتر فیصد آبادی بالواسطہ یا بلا واسطہ متاثر ہوئی ہے۔

لگ بھگ دس ہزار شہری بمباری و گولہ باری میں ہلاک ہوئے۔ تقریباً پینتالیس ہزار زخمی ہیں۔سات ملین شہریوں کو بنیادی خوراک کی اشد ضرورت ہے مگر زمینی، فضائی و بحری ناکہ بندی اور امن کی ابتری کے سبب امدادی ادارے بمشکل تین ملین یمنیوں تک خوراک پہنچا پا رہے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے مطابق شہری علاقے، اسپتال، اسکول، جنازے، باراتیں، بھاگنے والے پناہ گزین ، پناہ گزینوں سے بھری کشتیاں غرض ہر قابلِ ذکر شے غیرملکی طیاروں اور حوثی و غیرحوثی مخالف ملیشیا کے بلاامتیاز حملوں کی زد میں ہیں۔نوے فیصد آبادی کی رسائی دواؤں اور علاج تک نہیں۔پینے کا صاف پانی اور صفائی کی سہولتیں عنقا ہیں لہذا بچوں کا سب سے بڑا قاتل کالرا کی بیماری ہے اور تقریباً چھ لاکھ بچے اس بیماری کی زد میں ہیں۔نوعمر بچوں کو جبری بھرتی کے سنگین مسئلے کا بھی سامنا ہے۔دس دس برس کے بچوں کو بھی متحارب ملیشائیں رائفلیں تھما دیتی ہیں۔اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوترس کے بقول بیماری ، تشدد یا  بے گھری کے نتیجے میں اوسطاً ہر دس منٹ بعد ایک یمنی بچہ دم توڑ رہا ہے۔

جب سے اتحادی طیاروں نے بحرہِ قلزم سے متصل صوبے حدیدہ کی بندرگاہ پر نصب جہازوں سے مال اتارنے والی کرینوں کو تباہ کیا ہے اس کے بعد سے یمن میں بین الاقوامی امدادی رسد کا پہنچنا اور مشکل ہو گیا ہے۔گذرے مارچ میں ایک اتحادی ہیلی کاپٹر نے بحیرہ قلزم پار کرنے کی کوشش کرنے والی ایک پناہ گزیں کشتی پر حملہ کیا جس کے سبب چالیس سے زائد پناہ گزیں ہلاک اور درجنوں دیگر زخمی ہو گئے۔پناہ گزین کشتی پر فضائی حملے کا اپنی نوعیت کا یہ نادر واقعہ ہے۔

زیادہ تر یمنی شہری سہہ رخی ناکہ بندی کے سبب اپنے ہی ملک میں خوار ہیں۔بہت کم بحیرہ قلزم پار کر کے جیبوتی ، ایتھوپیا، سوڈان اور صومالیہ کے ساحل تک پہنچ پائے ہیں۔ جہاں سے وہ براستہ لیبیا یورپ جانے کے لیے بحیرہ روم پار کرنے کی خطرناک کوشش کرتے ہیں۔

سعودی عرب چونکہ ایک نہایت برادر ملک ہے اور بنگلہ دیش جیسی مخاصمت نہیں رکھتا لہذا جو افراد اور تنظیمیں روہنگیا مسلمانوں کی مدد کے لیے بنگلہ دیش کے ویزے اور اجازت کی دشواری سے دوچار ہیں اگر وہ سعودی عرب سے براہِ راست یا حکومتِ پاکستان کے توسط سے یمن میں امدادی رسائی پر زور دیں تو ہو سکتا ہے کہ کوئی شنوائی ہو جائے اور اگر آپ یمن کے مظلوم مسلمانوں سے بھی زیادہ مظلوم مسلمانوں کی مدد کے خواہاں ہیں تو پھر صومالیہ حاضر ہے۔

یہ ملک ڈھائی عشروں سے انتظامی و انسانی اعتبار سے ٹوٹل فارغ ہے۔صومالی اس قدر ترسے ہوئے ہیں کہ اس وقت ڈھائی لاکھ صومالی خانہ جنگی اور بمباری سے جو بچ رہے یمن کے پناہ گزین کیمپوں میں پڑے ہیں۔انھیں انسانی اسمگلروں نے یہ بتا کر یمن پہنچایا کہ یہاں سے تیل سے مالا مال خلیجی ریاستوں تک پہنچنا آسان ہے۔

میں احاطہِ پاکستان میں موجود متعدد مقامی مظلوم و پناہ کے خواہش مند مسلمانوں کے درجنوں گروہوں یا برادریوں کا تذکرہ جان بوجھ کے نہیں کر رہا۔کیونکہ یہ تو اپنے ہی ہیں۔ ان کی مدد تو کسی بھی وقت کوئی بھی کرسکتا ہے لہذا ان  کے لیے ضرورت سے زیادہ شور کیا مچانا۔ویسے بھی جدید قومی غیرت کا تقاضا ہے کہ اول درویش بعد خویش……

چنانچہ فلاحی کام کرنے والوں کے لیے بیرونِ پاکستان مظلوم مسلمانوں کی قطعاً کمی نہیں۔ اگر آپ کی نیت ہمدردی کی دوکان چمکانے یا میڈیا بازی سے زیادہ واقعی مدد کرنے کی ہے تو آپ المناکی کے عالمی مسلم مینیو میں سے اپنی پسند کی جگہ کا باآسانی انتخاب کر سکتے ہیں۔کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ مصیبت زدگان کی کوئی ذات اور فرقہ نہیں ہوتا۔یہ تو پیٹ بھروں کے چونچلے ہیں۔