counter easy hit

امبانی خاندان! دنیا بھر کے ارب پتیوں کیلئے کیا کیا مثالیں قائم کرچکا ہے، عاجزی و انکساری نہ صرف انسانوں بلکہ جانوروں کیلئے بھی درد دل رکھنے والا پچاس ہزار لوگوں کا خاندان

 


دوستو! یہ ریکارڈز سنبھال کے رکھ لینے چاہیں ان سے سیکھیں کہ دولت کا استعمال کیسے کیا جاتا ہے ہمارے یہاں بچوں کو یہ تو سیکھایا جاتا ہے کہ بیٹا دولت کماؤ دولت کمانے کے سو طریقے سیکھائے جاتے ہیں لیکن یہ کوئی نہیں سیکھاتا کہ دولت کو برتنا کیسے ہے استعمال کیسے کرنا ہے خرچ کہاں کرنا ہے۔

تبھی دولت حاصل کرنے کے بعد شاندار گاڑیاں، کوٹھیاں، فارم ہاوس اور پھر ان میں شراب، نشے، عورتیں ،شادیاں ، عیاشیاں پھر خودکشیاں یا جرائم۔

اس سے آگے کسی کو نہیں معلوم دولت کو کہاں خرچ کرنا ہے۔ کیسے برتنا ہے۔

https://www.facebook.com/share/r/mjnBEyzVcStts6i8/?mibextid=oFDknk
 

مکیش انبانی کے بیٹے کی شادی کی تقریبات کی وڈیوز آنی شروع ہوئیں تو میں نے اس خاندان کو سٹڈی کرنا شروع کیا میں ان کو جتنا جانتی گئی حیران ہوتی گئی میں نے ان کی شادی کی بیشمار وڈیوز دیکھیں دولت کا بے بہا استعمال دیکھا دنیا بھر سے چن کے کامیاب اور شاندار لوگوں کو اکھٹا کیا گیا ان کے آنے جانے، رہائش، کھانے پینے اور فنکشنز کا انتظام بہترین اور متاثر کن تھا۔

شادی جون میں ہو گی ابھی شادی سے پہلے کی تقریبات تھیں تین دن بین الاقوامی مہمانوں کے لیے تھے جبکہ تین دن ریلائنس گروپ کے ایمپلائیز کی دعوت تھی۔ جام نگر جو ایک خواب نگر لگ رہا تھا اس کے پچاس ہزار لوگوں کو تین دن تک کھانا کھلایا گیا جس میں مکیش امبانی اور دلہا آنند امبانی نے خود مہمانوں کی تھالی میں کھانے کی اشیاء سرو کیں۔

اس شادی کی سب سے متاثر کن بات پورے امبانی خاندان کی عاجزی اور انکساری ہے امبانی فیملی کے کسی ایک فرد کی گردن میں بھی سریا نہیں ہے کسی ایک میں فخر اور چہرے پہ رعونت نہیں ہے یہ خاندان حیران کن حد تک ملنسار اور مہمان نواز ہے۔

مکیش امبانی کی پوری باڈی لینگویج سے عاجزی ظاہر ہوتی ہے ان کے چہرے سے انکساری پھوٹ پھوٹ پڑتی ہے جو ان کے چہرے کو روشن کر دیتی ہے۔

مکیش امبانی کی بیگم نیتا امبانی ایک شاندار ، ویل ڈریسڈ، قابل، اور کمپوزر پرسنیلٹی ہیں۔ دلہا آنند امبانی امیر باپ کے عیاش بیٹے کے بجائے ایک اعلی تعلیم یافتہ قابل اور وژنری انسان ہیں جھک جھک کے مہمانوں سے مل رہے ہیں ایسے اپنائیت سے کبھی کسی کے بچے کو پیار کر رہے کبھی کسی بوڑھی خاتون کو تھام کے کھڑے۔

کروڑوں ڈالر ان تقریبات میں خرچ کرنے کے بعد بھی امبانی فیملی آپے سے باہر نہیں ہوئی میں نے کسی ایک وڈیو میں بھی مہمانوں کو شراب سرو کرتے یا پیتے نہیں دیکھا میں نے کسی ایک وڈیو میں بھی میزبانوں اور مہمانوں کو غل غپاڑہ کرتے نہیں دیکھا جو بھی پرفارمنسز ہوئیں سب planned تھیں۔well managed تھیں۔

امبانی خاندان انڈیا ہی نہیں ایشیا کا امیر ترین خاندان ہے ان کی ریلائنس گروپ آف کمپنی کے انڈر بے شمار صنعتیں ہیں جام نگر ان کا آبائی علاقہ ہے اس میں ان کی صنعتوں کی وجہ سے آلودگی نا ہو انہوں نے صنعتوں کے قریب ہزاروں ایکٹر زمین خرید کے اس پہ آم کا باغ لگایا یہ آم دنیا بھر میں ایکسپورٹ ہو کے بھارت میں زر مبادلہ لاتے ہیں۔

پورے بھارت کی صنعتی پروڈکشن میں امبانی کی ریلائنس کا میجر شئیر ہے ‘صنعت’ جو بڑے پیمانے پہ روز گار کے مواقع پیدا کرتی ہے۔ جس کی وجہ سے per capita income بڑھتی ہے.

‘صنعت’ جو ملک کی پیداور میں اضافے کا باعث بنتی ہے اور ملک کا GDP بڑھاتی ہے.

‘صنعت’ جو ملک کی پیداواری ضروریات کو پورا کرتی ہے جس کی وجہ سے نا صرف امپورٹس میں کمی ہوتی ہے بلکہ ایکسپورٹس میں اضافہ کر کے زر مبادلہ کمانے کا زریعہ بنتی ہے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار اس ملک کی صنعتی ترقی پہ ہوتا ہے۔
اس کے مقابلے میں زرا سوچیں ہمارے لوگوں نے کیا کیا life style کے نام پہ ساری کی ساری انوسٹمنٹ بحریہ ٹاون اور ڈی ایچ اے جیسے non productive منصوبوں پہ کر کے گھروں کی قیمتیں آسمان کی بلندیوں پہ پہنچا دیں کہ اب ایک عام آدمی گھر بنانے کا سوچ بھی نہیں سکتا صنعت تو کیا لگانی زراعت کو بھی اجاڑ کے رکھ دیا آموں کے باغ تباہ کر کر کے کالونیاں بنائی گئیں آم کے باغوں کا کرنا بھی کیا تھا وہاں کون سی صنعت تھی جس کی آلودگی کم کرنے کے لیے باغ لگانے کی ضرورت پڑتی اس لیے باغ اجاڑ کے رہائشی کالونیاں بنا دی گئیں۔

دوسری طرف اتنے وژنری حکمران ہیں جنہوں نے غلطی سے بھی کسی صنعت کی بنیاد نہیں رکھی عوام کے ٹیکس کے پیسوں پہ اپنے نام کے پوسٹر اور تصویریں لگا لگا کے کبھی راشن تقسیم کیے جاتے ہیں کبھی پناہ گاہیں بنائی جاتی ہیں اور کبھی انکم سپورٹ پروگرام کے نام پہ پوری قوم کو بھکاری بنایا جاتا ہے

اب حالات یہ ہیں کام کرنے کو کوئی تیار نہیں ہے سب مفتا توڑنا چاہتے ہیں محنت کرنا مشکل ہاتھ پھیلانا آسان لگتا ہے ہڈ حرامی ہڈیوں میں رچ بس گئی ہے۔

کل امریکہ میں ایک خاتون نے اپنی دولت کا بڑا حصّہ میڈیکل کالج کو ڈونیٹ کر کے طلبہ کی ایک سال کی فیس فری کر دی ہمارے یہاں ہے کوئی مائی کا لعل۔

دوستو! مکیش انبانی سمیت دنیا کے ان دولت مند خاندانوں کو کیس سٹڈی کے طور پہ لیں ان سے سیکھیں کہ دولت کو صرف کمانا اہم نہیں ہے بلکہ ہمیں یہ بھی پتہ ہونا چاہیے کہ دولت کا استعمال کیسے کرنا ہے اسکو خرچ کہاں کرنا ہے۔ ہمارے یہاں کئی پوٹینشل باصلاحیت لوگ صرف اس لیے بھی کام نہیں کرتے کہ بس انہوں نے اپنی ضرورت کا کما لیا ہے اس سے زیادہ کی حاجت نہیں ہے جبکہ انہیں اپنی ذات سے اوپر اٹھنا سیکھنا چاہیے اپنی صلاحیتوں کو اپنے ملک و قوم کی فلاح و بہبود کے لیے وقف کرنے کا جذبہ پیدا کرنا چاہیے۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website