تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر
کبھی ایسا ہوا ہو کہ میں نے گھر کے کام کے لئے ایک نوکر یا خادم رکھا ہو جو گھر والوں کی خدمت پر مامور ہو اور پھر مجھے اس خادم کی حفاظت کے لئے کم از کم پچاس ملازمین اور رکھنے پڑیں ؟ آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ یہ میں آج کایسی بہکی بہکی باتیں کرنے لگ پڑا ہوں تو معزز اور محترم اہل علم قارئین مجھے بہکی باتیں کرنے پر آج ایک دلخراش حادثے نے مجبور کر دیاہے ۔میں دکھے دل اور نم آنکھوں کے ساتھ یہ کالم لکھ رہا ہوں واقعہ کچھ یوں ہوا کہ آج ہمارے صرف ایک گھر کے نہیں بلکہ صوبے بھر کے خادم کی کالا شاہ کاکوآمد تھی جس کے لئے تمام محکمے ہائی الرٹ تھے۔
ایک خادم کے لئے پروٹوکول کی شکل میں ایک فوج ظفر موج کو پابند کیا گیا میری سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی کہ موصوف دعویدار ہیں کہ میں پنجاب بھر کا خادم ہوں ۔خادم تو گھر والوں کی خدمت کرتا ہے نا کہ گھر والوں کے لئے باعث اذیت ہوتا ہے ؟آج چشم فلک نے ایک عجیب منظر دیکھا وہ منظر کچھ ایسا تھا کہ حضرت خادم اعلی کے پروٹوکول کے ساتھ شیخوپورہ سے ریسکیو 1122 ڈسٹرکٹ انچارج ڈاکٹر اعظم کے ساتھ ساتھ دو عدد ایمبولینسز بھی پنجاب کے سب سے اعلی خادم کے پروٹوکول کارواں میں شامل تھیں۔
جس وقت خادم صاحب ادھراپنے پروٹوکولی لشکر کے ساتھ رواں دواں تھے عین اسی وقت شیخوپورہ میں فیصل آباد روڈ پر ایک خوفناک حادثہ ہوگیا جائے حادثہ سے زخمیوں کو ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر اسپتال پہنچانے کے لئے ایمبولینس سروس نا ہونے کے برابر تھی اس میں کوئی شک نہیں کہ ریسکیو 1122 کے نوجوان بڑی محنت و جانفشانی سے اپنے فرائض سے عہدہ براہ ہوتے ہیں مگر وہ کس طرح کام کرتے ؟ گاڑیاں تو خادم کی خدمت میں مصروف تھیں اور ان تڑپتے بلکتے سسکتے زخمیوں کو اٹھانے سے کہیں زیادہ باعث ثواب کام تھا ایک خادم کی خدمت اور خوشنودی ۔اور یہ زخمی لوگ عام شہری اور مزدور لوگ انہوں نے جی کے کرنا بھی کیا ہے ؟قارئین شیخوپورہ ایک بڑا شہر ہے روزانہ کی بنیاد پہ یہاں بہت سے حادثات ہوتے ہیں ریسکیو کے نوجوان چوبیس گھنٹے کام میں مصروف رہتے ہیں ان کو تو مزید گاڑیوں کی ضرورت ہے تا کہ یہ بر وقت اپنے فرض کی انجام دہی کر سکیں ناکہ ان سے گاڑیاں منگوا کر انہیں تہی دست کر دیا جائے۔
آج کے حادثے میں بہت سارے لوگ بڑی مخدوش حالت میں تھے و ہ تو آفرین ہے ریسکیو نوجوانوں کے جنہوں نے جیسے تیسے کر کے زخمیوں کو ڈی ایچ کیو اسپتال شیخوپورہ پہنچایا ۔ اور قابل صد تحسین ہیں ڈی ایچ کیو کی ایم ایس جنہوںنے بذات خود اپنی نگرانی میں تمام زخمیوں کو دیکھا اور صرف چار زخمی جو کہ انتہائی تشویشناک حالت کے تھے ان کو لاہور جنرل اسپتال ریفر کیا ۔مگر یہ بات کم از کم مجھے تو بڑی حیران کن لگی کہ خادم کی خدمت پہ ان کو کیوں مامور کیا جاتا ہے جو گھر والوں کی خدمت کے لئے وقف ہیں ۔اگر ہمیں خادم ہونے کا شوق ہے تو خدمت کو شعار کیوں نہیں بناتے زبان سے کہہ دینے سے خادمیت کا تاج نہیں مل جاتا انسانیت کی حقیقی خدمت سے ہی خدامی کی شہنشاہی عطا کرتی ہے میری خادم اعلی سے ایک ہی گزارش ہے کہ اگر وہ سچ مچ خادم ہیں تو دوسرے عوامی خادموں کو عوام کی خدمت کرنے دیں تا کہ لوگ آپ کو ہمیشہ یاد رکھیں اگر آپ خادم اعلی ہیں تو کائنات کے حاکم اعلی کی خوشنودی کے لئے کام کریں زبانی جمع خرچ سے کچھ نہیں ہوتا عملی طور پہ بھی کچھ کرنا پڑتا ہے۔
دیکھیں نا صاحب اگر آپ کو عوام نے چنا ہے تو پھر ان کے درمیان گھومنے پھرنے سے آپ کو کیا خطرہ ہے پھر اپنے ساتھ بھاری نفری کو تعینات کروانا کس لئے بالخصوص ایسے اداروں کو اپنے پروٹوکولی لشکر میں نا ہی شامل کیا کریں جن کی ہمہ وقت ہنگامی حالت میں ڈیوٹی دینا فرض اولین ہے جو عوام آپ کو چن سکتی ہے وہ آپ کے نقصان کا سوچ بھی نہیں سکتی اگر ہو سکے تو وی آئی پی کلچر کے خاتمے کے لئے کوئی ہمت کریں آپ دنیا کو دکھا دیں کہ اکیلا شہباز شریف ہی وی آئی پی نہیں بلکہ اس وطن کا ہر باسی وی آئی پی ہے ابھی آپ کے پاس اختیار ہے آپ ملک سے نہیں تو کم از کم پنجاب سے ہی اس قبیح رسم کا خاتمہ کر کے حاکم اعلی کی خوشنودی حاصل کر سکتے ہیں ۔
اس خالق کی خوشنودی تب حاصل ہو گی جب اس کی مخلوق آپ سے خوش ہو گی خدارا اب پروٹوکولی لشکر اول تو ختم ہی کر دیں اگر یہ نہیں کر سکتے تو اس کے حجم کو گھٹا دیں تاکہ خدمت کرنے والوں سے صرف آپ لوگ ہی مستفید نہ ہوں بلکہ عام عوام بھی ان کی خدمات سے استفادہ حاصل کر سکے ۔امید کرتا ہوں کہ اب آپ کی وجہ سے لوگ ایمبولنس کی راہ تکتے سڑکوں پر تڑپنے کی بجائے فوری امداد پہنچنے پر موت کی وادی میں جانے کی بجائے زندگی کی طرف لوٹ آئے گی۔
تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر
Mobile;03344954919
Mail; mhbabar4@gmail.com