counter easy hit

ٹرمپ کی بھارت سے ’’شراکت داری‘‘

ٹرمپ میرے لئے وہ ’’کمبل‘‘ ہوچکا ہے جو اصل میں ریچھ ثابت ہوتا ہے اورآپ اس سے جان چھڑانا بھی چاہیں تو چھڑا نہیں پاتے۔
ملکی اور علاقائی معاملات کے تناظر میں کئی موضوعات ہیں‘ان کے بارے میں چند کتابیں اور کچھ تحقیقی مضامین پڑھنے کے بعد ذرا تفصیل کے ساتھ لکھنے کا ارادہ کئی دنوں سے باندھ رکھا ہے۔ امریکہ کا صدر منتخب ہونے کے بعدبھی یہ شخص مگر ہر روز کوئی ایسی بات کردیتا ہے جسے نظرانداز کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔
اپنے عہدے کا حلف اس نے گزشتہ جمعہ کے روز اٹھایا تھا۔ ہفتہ اور اتوار ’’مبارک سلامت‘‘ کے شور کی نذر ہوگئے۔پیر کی صبح اس نے دفتری کام کا باقاعدہ آغاز کیا تو کئی فیصلے کرڈالے۔ جنوب مشرقی ایشیاء کے کئی ممالک کو ایک تجارتی معاہدے کا حصہ بناکر،بارک اوبامہ نے کئی مہینوں کی جدوجہد کے بعد چین کے بڑھتے ہوئے اثر کو روکنے کی جو کوشش کی تھی اسے ڈونلڈٹرمپ نے ایک دستخط کے ذریعے ’’کالعدم‘‘ قرار دے دیا۔اس خطے میں اس فیصلے کے دور رس اثرات ہوں گے جو کئی حوالوں سے بہت خوفناک بھی ہوسکتے ہیں۔ ہمارے لئے فی الوقت وہ شاید اتنے اہم نہیں ہیں۔ امریکہ جانے اور اس کے جاپان،جنوبی کوریا اور آسٹریلیا جیسے دیرینہ اتحادی۔
بطور پاکستانی میرے لئے اہم ترین بات یہ ہے کہ اقتدار سنبھالنے کے تیسرے دن ٹرمپ نے صرف دو غیر ملکی سربراہان سے ٹیلی فون پر تفصیلی گفتگو کی۔ اسرائیل کے وزیر اعظم کے بعد اس ضمن میں دوسرا شخص بھارت کا نریندرمودی تھا۔ بات عیاں ہوگئی کے امریکی صدر آنے والے دنوں میں اسرائیل اور بھارت کی شراکت کے ساتھ ایک نیا عالمی کھیل کھیلنے کے چکر میں ہے۔
مودی کے ساتھ ٹرمپ کی جو گفتگو ہوئی اس کے بارے میں وائٹ ہائوس نے سرکاری طورپر ایک مختصر بیان جاری کیا ہے۔یہ صرف 120الفاظ پر مشتمل ہے۔بھارتی حکومت نے اپنے تئیں اس بات چیت کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا۔
بہرحال وائٹ ہائوس نے جو بیان جاری کیا اس کے مطابق امریکی صدر نے بھارت کو اپنا ’’سچا دوست‘‘قرار دیا اور اس امید کا اظہار بھی کہ امریکہ اور وہ عالمی امور کو ’’شراکت داری‘‘کے ساتھ سنبھالیں گے۔ اپنے ’’سچے دوست‘‘ کی معیشت اور دفاع کو مضبوط بنانے کے لئے امریکی صدر نے اپنے بھرپور تعان کا یقین دلایا۔ عالمی امور کے ضمن میں بھارت کی ’’شراکت داری‘‘ کو البتہ عمومی زبان میں بیان کیا گیا مگر’’علاقائی امور‘‘کا ذکر کرتے ہوئے جنوبی اور وسطی ایشیاء کو گویا خطِ کشیدہ سے نمایاں کیا گیا۔
بھارتی وزیر اعظم سے گفتگو کرتے ہوئے کسی عالمی رہ نما کی جانب سے جنوبی ایشیاء کا ذکر ہمیں ہرگز حیران نہیںکرتا۔ چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ کسی امریکی صدر نے پہلی بار بھارت کو وسطی ایشیاء کے حوالے سے بھی اپنا ’’شراکت دار‘‘بنالیا ہے۔ پاکستان کے لئے فوری طورپر یہ ’’شراکت داری‘‘درحقیقت یہ پیغام دیتی ہے کہ ڈونلڈٹرمپ،بھارت کو افغانستان سے جڑے معاملات کا ایک اہم ’’فریق‘‘تسلیم کرتا ہے۔ بات صرف افغانستان تک محدود نہیں رہی۔ توقع یہ بھی باندھی جارہی ہے کہ بھارت اور امریکہ، ازبکستان، تاجکستان، ترکمانستان اور قزاقستان وغیرہ کے بارے میں باہم مل کر اپنے مفادات کا تعین اور ان کے حصول کی کوشش کریں گے۔
ٹی وی سکرینوں کی بدولت دفاعی امور کے ماہر بنے چند جانے پہچانے چہروں کی توجہ جب اس پہلو کی طرف دلائی گئی تو بہت رعونت کے ساتھ انہوں نے یاد دلانا شروع کردیا کہ روس بھی چین کی طرح اب پاکستان کا دوست بننا چاہ رہا ہے۔ فکر کی لہذا کوئی بات نہیں۔
روس کی پاکستان سے بڑھتی محبت کا ذکر کرتے ہوئے ہمارے بقراط مگر یہ بھول گئے کہ ماسکو،نئی دہلی کا دیرینہ رفیق رہا ہے۔ بھارتی افواج کے زیر استعمال اسلحے کا تقریباََ 60فیصد اب بھی روس کا تیار کردہ ہے۔بھارت کو اسے تیار کرنے کی مہارت یقینا منتقل کردی گئی ہے۔ تاہم اس اسلحے کے نئے ڈیزائن اب بھی روس ہی مارکیٹ میں لاتا ہے جو بھارت کو اپ گریڈیشن کے لئے اس سے رجوع کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔اہم ترین بات یہ بھی ہے کہ ٹرمپ روسی صدر پیوٹن کا ایک فین بھی ہے۔ وہ روس کے ساتھ گہرے رشتے استوار کرنا چاہتا ہے۔ ان رشتوں کے استوار کو یقینی بنانے کی خاطر اس نے ایک ایسے شخص کو اپنا وزیر خارجہ بنایا ہے جو امریکہ کی ایک بہت بڑی تیل کمپنی-ایکسسون-کا سربراہ ہوا کرتا تھا۔ روس نے کریمیا کو یوکرین سے جدا کرکے اسے ہتھیالیا تو امریکہ اور یورپ نے باہم مل کر اس کا اقتصادی بائیکاٹ کردیا۔ اس بائیکاٹ کے باوجود ایکسسون نے سائبیریا کے برفانی صحرا میں تیل کی تلاش جاری رکھی۔ کہا جارہا ہے کہ اس وسیع وعریض صحرا میں تیل کے جو ذخائر دریافت ہوئے ہیں وہ آنے والے کئی برسوں تک عالمی منڈی تک پہنچ کر روسی حکومت اور ایکسسون کے لئے اربوں ڈالرکا سالانہ منافع یقینی بناتے رہیں گے۔
تفصیلات میں الجھے بغیر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اوبامہ کا امریکہ چین کو صرف مشرقی ایشیاء کی منڈیوں سے دور رکھنا چاہ رہا تھا۔جاپان،کوریا اور ویت نام جیسے ممالک چین کے ساتھ اپنی تاریخی عصبیت کی وجہ سے اس ضمن میں امریکہ کے شراکت دار بننے کو دل وجان سے تیار تھے اور رہیں گے۔ شاید اسی بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنا عہدہ سنبھالتے ہی نئے امریکی وزیر دفاع نے سب سے پہلے جاپان اور جنوبی کوریا جانے کا فیصلہ کیا۔ ہمارے ہاں بہت کم لوگ یہ بات یاد رکھتے ہیں کہ ان دو ممالک میں امریکی افواج اب بھی موجود ہیں۔ ان کے لئے اچھے بھلے شہر دِکھتی بڑی بڑی مخصوص کالونیاں بھی ہیں جہاں مقامی افرادبآسانی داخل نہیں ہوسکتے۔
نریندر مودی کے ساتھ گفتگو میں وسطی ایشیاء کا ذکر میری ناقص رائے میں یہ اشارہ دے رہا ہے کہ ڈونلڈٹرمپ کا امریکہ اب بھارت اور روس کے ساتھ مل کر چین کے افغانستان،قزاقستان اور ازبکستان جیسے ممالک میں بڑھتے ہوئے اثرکو روکنا چاہ رہا ہے۔ تیل۔گیس اور قیمتی معدنیات سے مالامال وسطی ایشیاء کے یہ ممالک 1990ء کی دہائی تک روس کی نوآبادیاں تھے۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد وہ ’’آزاد‘‘ ہوگئے۔ اپنی معاشی بقاء کے لئے مگر وہ اب بھی ٹھوس جغرافیائی اور تاریخی وجوہات کی بناء پر ماسکو پر انحصار کرنے کو مجبور ہیں۔ امریکہ کو ان ممالک تک زمینی رسائی حاصل نہیں۔ وہ افغانستان میں موجود ہے۔ اس کے لئے وہاں پہنچنے کے لئے آسان ترین راستہ مگر پاکستان سے جاتا ہے۔ اس ٹھوس حقیقت کو نظرانداز کرتے ہوئے ٹرمپ نے بھارت کو وسطی ایشیاء کے حوالے سے اپنا ’’شراکت دار‘‘کیوں بنایا؟ اس سوال کا جواب مجھے نہیں مل پارہا۔ شاید ٹی وی سکرینوں کی بدولت ’’دفاعی ماہر‘‘ مشہور ہوا کوئی بقراط میری رہ نمائی فرمادے۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website