counter easy hit

بھارت میں عام انتخابات کا آخری مرحلہ شروع

ممبئی: بی جے پی نے 2014 کے انتخابات میں مودی کی مقبولیت کی لہر میں اتر پردیش اور شمالی انڈیا کی چند سیٹوں کو چھوڑ کر باقی سبھی سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ انڈیا کے پارلیمانی انتخابات کے پانچویں دور کی پولنگ شروع ہوچکی ہے۔ اس مرحلے میں سات ریاستوں کی 51 نشستوں کے لیے پولنگ ہورہی ہے۔ ان میں اتر پردیش کا لکھنؤ حلقہ بھی شامل ہے جہاں سے بی جے پی کے سینئر رہنما اور وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ امیدوار ہیں۔ان کا مقابلہ کانگریس کے ایک سادھو آچاریہ پرمود کرشنم جبکہ بی ایس پی اور سماج وادھی پارٹی کی متحدہ امیدوار پونم سنہا سے ہے۔ پونم فلم اداکار شتروگھن سنہا کی اہلیہ ہیں۔ پونم کا تعلق ممبئی سے ہے اور وہ حال ہی میں سیاست میں آئیں ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ مودی حکومت نے ملک کی جمہوریت کو آمریت میں بدل دیا ہے، ‘یہ بہت خطرناک صورتحال ہے اگر پانچ برس کے لیے اقتدار دوبارہ ان کے ہاتھ میں چلا گیا تو ملک بالکل ہی ختم ہو جائے گا۔’بی جے پی کے رہنما راج ناتھ سنگھ پورے ملک میں عوام کو یہ باور کراتے رہے ہیں کہ مودی حکومت کے تحت ملک انتہائی تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘اگر مودی کی حکومت دوبارہ اقتدار میں آئی تو آئندہ پندرہ برس میں انڈیا امریکہ اور چین کے بعد دنیا کی تیسری سب سے بڑی طاقت ہوگا۔

’کانگریس کے آچاریہ پرمود کرشنم کہتے ہیں کہ انتخاب یہ طے کرے گا کہ نفرت اور محبت کے درمیان جیت کس کی ہوتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مودی حکومت نے جمہوریت میں عوام کے اعتبار کو چوٹ پہنچائی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘یہ انتخاب یہ فیصلہ کرے گا کہ عوام جھوٹ کے ساتھ ہیں کہ سچ کے ساتھ، نفرت کے ساتھ کھڑے ہیں کہ محبت کے ساتھ ہیں، فرقہ پرست طاقتوں کے ساتھ ہیں کہ ان رہنماؤں کے ساتھ جو مذہبی ہم آہنگی اور باہمی احترام میں یقین رکھتے ہیں۔اتر پردیش سیاسی اعتبار سے انڈیا کی سب سے اہم ریاست ہے۔ بی جے پی نے 2014 کے انتخابات میں مودی کی مقبولیت کی لہر میں اتر پردیش اور شمالی انڈیا کی چند سیٹوں کو چھوڑ کر باقی سبھی سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔معروف تجزیہ کار اور ہندوستان ٹائمز کی مدیر سنیتا ایرن کا کہنا ہے کہ بی جے پی پہلے ہی سب سے اوپر تک پہنچ چکی ہے اور اب اسے نیچے ہی آنا ہے۔بی جے پی اور اس کے محاذ این ڈی اے کو اکثریت نہ ملنے کی صورت میں اتحادی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا مودی کے لیے مشکل ہو گا’جب بی جے پی نیچے جا رہی ہے تو یہ دیکھنا ہوگا کہ اتر پردیش اور شمال کی ریاستوں میں اسے جتنی نشستوں کا نقصان ہوگا اس کا ازالہ وہ ملک کی کن ریاستوں سے کرسکتی ہے؟ وہ کہيں نظر نہیں آرہا ہے۔ یہ صورتحال بی جے پی کے لیے پریشان کن ہے۔ بی جے پی اور اس کے محاذ این ڈی اے کو اکثریت نہ ملنے کی صورت میں اتحادی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا مودی کے لیے مشکل ہوگا۔ ’سنیتا کہتی ہیں ’نریندر مودی بہت انفرادی اور جارحانہ قسم کے رہنما ہیں۔ وہ اقلیت میں رہ کر اتحاد کو ساتھ نہیں لا پائیں گے۔ اتحادی جماعتیں مودی کی جگہ بی جے پی کے کسی اور متفقہ رہنما پر زوردیں گی۔
دوسری جانب کانگریس بھی بظاہر اس حالت میں نظر نہیں آتی کہ وہ انفرادی طور پر تو دور کی بات، اپنے سیاسی اتحادی یو پی اے کے ساتھ بھی اکثریت حاصل کرنے کے قریب ہو۔تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ راہل گاندھی تب ہی وزیر اعظم بنیں گے جب کانگریس کی اپنی اکثریت ہو۔ اگر ان کی سیٹیں کم ہوئیں تو وہ ممکنہ طور پرحزب اختلاف کی جماعتوں کے کسی رہنما کی حمایت کا اعلان کر سکتے ہیں۔ سنیتا ایرن کا کہنا ہے کہ ملک کی اگلی حکومت میں علاقائی جماعتوں کا کلیدی کردار ہو گا۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ راہل گاندھی تب ہی وزیر اعظم بنیں گے جب کانگریس کی اپنی اکثریت ہے۔ان کے خیال میں ’سنہ 2019 کے انتخاب میں کئی نئی باتیں ہونے والی ہیں۔ ملک ایک نیا وزیر اعظم دیکھ سکتا ہے جس کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ راہل کا کیا کردار رہے گا؟ ان کی سیاسی پختگی کا بھی اندازہ ہو سکے گا اور علا‍قائی جماعتیں فیصلہ کن کردار ادا کریں گی۔‘کہاوت ہے کہ دلی کے اقتدار کا راستہ اتر پردیش سے ہو کر گزرتا ہے۔ گذشتہ انتخاب میں اتر پردیش کی 80 میں سے 71 نشستیں جیت کر بی جے پی اقتدار میں آئی تھی۔ لیکن اس بار انتخاب کی صورت بدلی ہوئی ہے۔ریاست کی دو بڑی علاقائی جماعتیں سماج وادھی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی عشروں کے بعد متحد ہو کر انتخاب لڑ رہی ہیں۔ اگر وہ گزشتہ انتخاب کا نتیجہ پلٹنے میں کامیاب ہوتی ہیں تو دوبارہ اقتدار میں آنے کا بی جے پی کا راستہ انتہائی دشوار گزار ہوگا۔