counter easy hit

مریم نواز قصوروار ہے یا بے گناہ ۔۔۔۔ جنرل رضوان نے مجھے کیا بتایا تھا ؟ چکری کے چوہدری کا چکرا دینے والا انکشاف

کراچی;؛نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے چوہدری نثار نےکہا کہ نواز شریف کے ساتھ پاناما لیکس سے اختلاف شروع ہوا اور پاناما ہی پر ختم ہوا اس کی تفصیلات الیکشن کے بعد بتاؤں گا ان سے اختلاف سیاسی کم ہیں ذاتی زیادہ ہیں، شہباز شریف اپنے موقف پرکھڑے نہیں ہوتے ،

پرویز رشید کو قربانی کا بکرا میں نے نہیں میاں نوازشریف نے بنا یا ، جنرل رضوان نے خود کہا کہ مریم نوا زکا نیوز لیکس سے کوئی تعلق نہیں،حسن نواز کو کہا آپ کچھ بتا نہیں رہے ، آپ چھپا نہیں سکتے ، دنیا کے سامنے حقائق لانے پڑیں گے نواز شریف نے بھی میرے موقف کی حمایت کی ، تین غیرسیاسی لوگوں کی وجہ سے نواز شریف اس نہج پر پہنچے،انہیں تقریر کرنے ، سپریم کورٹ جانے اور جے آئی ٹی قبول کرنے سے منع کیا تھا،کسی کھیل کا حصہ نہیں بنوں گا،میرے ذہن میں بڑا ایک کلیئر ویو ہے کہ الیکشن کے بعد صورتحال کیا ہونی ہے بتا نہیں سکتا،میری خواہش ہے کہ ملک کے مسائل ختم کرنے کے لئے آئندہ حکومت نہیں پوری پارلیمنٹ ایک پلیٹ فارم پر آئے اس کے لئے آواز اٹھاؤں گا قومی مفاد میں پی ٹی آئی پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ ن ساری پارٹیوں کے ساتھ بیٹھ سکتا ہوں ،اس الیکشن کے نتیجے میں اگر جمہوری طریقے سے سیاسی رہنما اپنی پوزیشن تبدیل کرتے ہیں توآئندہ پاکستان کی جمہوریت میں یہ بہت مثبت ثابت ہوگا۔انہوں نے مزید کہا کہ جہاں تک اس نئے ماحول کا تعلق ہے میں آزاد الیکشن حالات کے جبر کے تحت لڑ رہا ہوں اور کوئی فرق اپنے حلقے میں محسوس نہیں کر رہا ،

آزاد الیکشن لڑتے ہوئے عوام کے ساتھ میرا رشتہ پہلے بھی قائم تھا اور اب بھی قائم ہے بلکہ لوگ تو اب زیادہ جذباتی نظر آرہے ہیں۔ نواز شریف سے محبت کا رشتہ برقرار نہیں ہے میں اس کی وضاحت کسی نہ کسی وجہ سے نہیں کرسکامیری خواہش ہے کہ نواز شریف اور شہباز شریف سے جو رشتہ ہے وہ قوم کے سامنے رکھوں اور اختلافات کے پس منظر بھی ۔شاید یہ موقع الیکشن کے بعد آئے ۔انہوں نے کہا کہ میں راز افشاں کرنے پر یقین نہیں رکھتا میرا عمران خان سے بھی چالیس سال کا تعلق ہے لیکن کبھی بھی سیاسی مخالفت کی بناء پر کوئی راز افشا نہیں کیا ۔ پاناما لیکس پر نواز شریف کے ساتھ معاملات خراب ہونا شروع ہوئے میں نے انہیں یہی مشورہ دیا تھا کہ اس کیس کو سپریم کورٹ نہ لے کر جائیں اور کئی دوستوں نے بڑے اینکرپرسنز نے کہا کہ شاید میں نواز شریف کو بچانا چاہتا تھا میرا موقف یہ تھا کہ جب میں نے کہا کہ سپریم کورٹ نہ لے کر جائیں تو اس وجہ سے کہا کہ سپریم کورٹ میں سیاسی کیس لے جانا سپریم کورٹ کو متنازعہ کرنے کے مترادف ہوگا کیونکہ اگر فیصلہ نواز شریف کے حق میں ہوا تو اپوزیشن متنازعہ بنائے گی اور ،

اگر فیصلہ نواز شریف کے خلاف ہوا تو مسلم لیگ ن بنائےگی میں نے نواز شریف کو کہا کہ آپ جو بھی موقف لینا چاہتے ہیں سپریم کورٹ میں مجھ سمیت اپنے بچوں کو بلائیں شہباز شریف اسحق ڈار کو بلائیں اور ہم کو آگاہ کریں تاکہ ہم اس کو سیاسی طور پر فائن ٹیون کریں پھر یہ کیس لے کر جائیں دو میٹنگز ہوئیں کچھ انہوں نے نہیں بتایا اور وہ میٹنگز کافی بدمزگی پر ختم ہوئیں میں نےحسن نواز کو کہا کہ میں چاہتا ہوں آپ کے والد کی مدد کی جائے آپ کچھ بتا نہیں رہے یہ آپ چھپا نہیں سکتے یہ سارا کیس سپریم کورٹ میں جائے گا دنیا کے سامنے حقائق لانے پڑیں گے نواز شریف نے میرے موقف کی حمایت کی مگر کچھ بات نہیں بنی پاناما لیکس سے اختلاف شروع ہوا اور پاناما ہی پر ختم ہوا اس کی تفصیلات الیکشن کے بعد بتاؤں گا ۔آج جس نہج پر نواز شریف ہیں وہ اُس کے ذمہ دار خود ہیں دوسرا جو انہیں مشورے دیئے گئے اور انہوں نے اُن پر عمل کیا یہ ذمہ داری بھی لیڈر کی ہوتی ہے کہ وہ کس مشورے پر کتنا عمل کرتا ہے اور میں نے انہیں تقریر کرنے سے بھی روکا تھا،

اس کے بعد جو جے آئی ٹی کو قبول کیا اس کا بھی منع کیا تھا۔میں سمجھتا ہوں یہ اُس لیول کے لوگ نہیں ہیں کہ میں اُن کا نام لوں اور یہ کہوں کہ ان تین لوگوں کی وجہ سے نواز شریف اس نہج پر پہنچ گئے وہ لوگ مکمل غیر سیاسی تھےنواز شریف کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے تھا کہ میں سیاسی لوگوں سے مشورہ لوں میں نے اپنے مشورے مسلط کئے پھر بھی قبول نہیں کیے گئے۔میاں نواز شریف روزِ اول سے بہت خوشامد پسند تھے اور ہیں انہوں نے اپنے ارد گرد ایسے لوگ رکھے جو سیاسی بھی تھے اور اُن کو ایسے مشورے دیتے تھے جو کئی دفعہ تلخ ہوتے تھے میرے علاوہ اور لوگ بھی تھے جب سے وہ الگ ہوئے تب سے ایسے لوگ نواز شریف کے قریب آگئےجو خوشامد پر یقین رکھتے تھے۔ شہباز شریف کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کہ بھائیوں کے اختلافات میں آپ کو استعمال کیا گیا اور بعد میں شہباز شریف دوسری سائیڈ پر چلے گئے اس کے جواب میں چوہدری نثار کا کہنا ہے کہ ہمارا اتفاق تھا کہ پارٹی کو کس حوالے سے آگے لے کرچلا جائے پہلے وہ مکمل اتفاق کرتے رہے پھر آخر میں وہ ایک اور موقف کے حامی ہوگئے ،

میں اس کو اپنے ساتھ بے وفائی سمجھتا ہوں ۔ میں نے نواز شریف سے کہا آپ اپنی مشکلات میں اضافہ نہ کریں آپ کی حکومت ہے جو آپ کو شکایت ہے فوج سے آپ آرمی چیف کو بلائیں ڈی جی آئی ایس آئی کو بلائیں میں بات کروں گا آپ صرف بیٹھ کر سنیں جب میں وزیر نہیں تھا تو میں نے کہا شاہد خاقان عباسی آپ کے وزیراعظم ہیں آپ کی حکومت ہے فوجی قیادت کو بلا کر اپنے تمام تر خدشات سامنے رکھیں جو ثبوت ہیں وہ سامنے رکھیں میں نے یہ مشورے دیئے ۔ جب سپریم کورٹ نے اُن کے خلاف فیصلہ دیا تب نا عدلیہ سے لڑائی تھی نہ فوج سے لڑائی تھی فوجی قیادت سے بہت اچھے تعلقات تھے عدلیہ نے جب فیصلہ دیا تو مٹھائی بانٹی گئی میاں نواز شریف کا کہنا تھا کہ مجھے نہیں پتہ کہ میرے کہنے پر یا خود انہوں نے فیصلہ کیا اُن کے تعلقات عدلیہ سے بہت اچھے تھے۔میرا ایک موقف تھا کہ میں بچوں کے پیچھے ہاتھ باندھ کے کھڑا نہیں ہوسکتا اب میں آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ رہا ہوں ۔ آج آپ مسلم لیگ ن کے ممبر ہیں اس پر چوہدری نثار نے کہا کہ ٹیکنیکلی دیکھا جائے تو بالکل ہوں میں میرے اجداد مسلم لیگی ہیں میاں نواز شریف تو حادثاتی طور پر مسلم لیگی ہوئے کوئی مجھے مسلم لیگ سے نہیں نکال سکتا اورہمارے اختلاف سیاسی کم ہیں ذاتی زیادہ ہیں ۔

میری کوئی شکایات نہیں ہیں مستقبل کے حوالے سے کچھ نہیں کہہ سکتا اور دروازے نواز شریف نے بند کئے ہیں بند صرف اسلئے کیے ہیں کہ پارٹی میں کوئی اختلاف رائے نہ ہو اور ایک سابقہ وزیر کہتے ہیں کہ وہ اختلاف رائے کرتے تھے میں نے تو صرف انہیں خوشامد کرتے دیکھا ہے۔ کسی پارٹی کا لیڈر بننے کے لئے یہ کافی نہیں کہ آپ کسی لیڈر کے بیٹے ہوں یا بیٹی اس وقت مریم نواز اور اُن کے والد جیل میں ہیں میں اس پر زیادہ بات نہیں کرنا چاہتا۔ کلثوم نواز کی عیادت ایک سے زیادہ دفعہ کرچکا ہوں نواز شریف سے بھی عیادت کی ہے ۔ کس کو وزیراعظم بنتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اس پر روشنی ڈالتے ہوئے چوہدری نثار کا کہنا ہے کہ میرے ذہن بڑا ایک کلیئر ویو ہے کہ الیکشن کے بعد صورتحال کیا ہونی ہے اس پر ابھی مناسب نہیں کہ بات کروں کسی کو فائدہ ہوجائے گا کسی کو نقصان ہوجائے گا ۔میری خواہش ہے کہ ملک کے مسائل ختم کرنے کے لئے آئندہ حکومت نہیں پوری پارلیمنٹ ایک پلیٹ فارم پر آئے اس کے لئے آواز اٹھاؤں گا قومی مفاد میں پی ٹی آئی پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ ن ساری پارٹیوں کے ساتھ بیٹھ سکتا ہوں،

جہاں تک پارٹی جوائن کرنے کی بات ہے وہ ایک الگ بات ہے۔ عام طور پر یہ تاثر ہے کہ آگے جا کے کسی نے عمران خان کو وزیراعظم بنانا ہے چوہدری نثار کو آگے کر دیا جائے گا اُنکے ساتھ آزاد امیدوار جیپوں والے گھوڑوں والے اور پیپلز پارٹی پی ٹی آئی کو ملا کر ایک مخلوط حکومت بنا دی جائے گی اس طرح کا کچھ ہونے جارہا ہے اس پر چوہدری نثار کا کہنا ہے کہ میں کبھی اس طرح کے کھیل کا حصہ نہیں بنا نہ ہی بنوں گا تھوڑی بہت عزت اللہ نے دی ہے اُس کو خراب نہیں کروں گا۔میں نے نواز شریف اور اپنے حلقے کی عوام سے وفاداری کی میں یہ ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ ایک شخص نے میرے ساتھ بیوفائی کی اور میرے لئے یہ ذاتی مسئلہ ذاتی سیاست کا مسئلہ بن گیا تھا کہ میں ثابت کروں کہ حلقہ کی عوام میرے ساتھ ہے۔ چوہدری نثار نے کہا کہ مجھے کوئی بھی کسی راستے پر نہیں لگاسکتا ، جس طرح مجھے خاندانی مسلم لیگی ہونے پر فخر ہے اسی طرح ایک فوجی خاندان سے ہونے پر بھی مجھے فخر ہے ، میرے داد، والد اورمیرے بھائی سب فوجی تھے اور اب چوتھی نسل جو میرے بھانجے ، بھتیجوں کی ہے وہ بھی فوج میں ہیں ۔

مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ میرے خاندان نے اس ملک کے لیے خون دیا ہے ، میں نے چونتیس سال میاں نوازشریف کا ساتھ دیا جب بھی سول ملٹری کا مسئلہ ہوا میں نوا زشریف کے ساتھ کھڑا ہوامثلاً جنرل بیگ سے میرے ذاتی اور بہت اچھے تعلقا ت تھے جب گلف مسائل پر جنرل بیگ کا بیان آیا تو میں واحد وزیر تھا جس نے اس کے مخالف بیان دیا ، جنرل آصف نواز سے ہمارے خاندانی تعلقات تھے دو نسلوں سے تو میں جانتا ہوں جب انہوں نے ایم کیو ایم کے خلاف ملٹری آپریشن کیا اس وقت بھی میں واحد شخص تھا جس نے آواز اٹھائی اور اس کے بعد میرے تعلقات انتہائی خراب ہوگئے تھے ، اسی طرح جنرل پاشا، جنرل مشر ف ۔ اور ان پانچ سالوں میں خواہ نیوز لیکس ہو یا کوئی اورمسئلہ ہو ان کے تو منہ میں زبان نہیں ہوتی تھی ۔ جب نیوز لیکس پر ٹوئٹ آیا میں اس وقت کراچی میں تھا ،اس وقت میں نے ہی رد دعمل دیا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی طرف سے یہ ٹوئٹ جمہوریت کے لیے زہر قاتل ہے ، اداروں کا حکومت کے ساتھ مخاطب ہونے کا یہ کوئی طریقہ نہیں ہے جبکہ اس پر میاں نوازشریف یا ان کے انقلابیوں نے کوئی بیان نہیں دیا ۔ نیوز لیکس میں جنرل رضوان اختر اور راحیل شریف اس بات کے گواہ ہیں کہ جب میٹنگ ہوئی تو نا میاں نواز شریف بولے اور نا ہی کسی اور نے ہمت کی اس وقت بھی میں ہی حکومت کا دفاع کرتا رہا ۔