counter easy hit

چراغِ مصطفوی سے شرار بولہبی

Obama

Obama

تحریر: نعمان قادر مصطفائی
امریکی صدر اوبامہ کے دورہ بھارت کے بارے میں مختصر اتناہی کہوں گا کہ جب 1996ء میں سیموئل پی ہنٹنگٹن کی تصنیف ”تہذیبوں کا تصادم ” (clash of civilizations)منظر عام پر آئی تو بہت شور برپا ہوا اس تصنیف میں 18سال پہلے پڑھا ہواایک جملہ مجھے ابھی تک یاد ہے جس میں کہا گیا تھا کہ ”جب بھی مغرب اور اسلام کے درمیان جنگ ہو گی امریکہ ہندو ازم کا پارٹنر (اتحادی )ہو گا ”بس آج مجھے اوبامہ کے دورہ بھارت کے متعلق اتنا ہی عرض کرنا تھا میرے چندلفظوں کوبہت سمجھیں ۔۔۔۔ کہنے والے کہتے اور لکھنے والے لکھتے ہیں کہ جس طرح جنگ میں دشمن کے مقابلے کے لیے صحیح حکمت عملی کے تعین کے لیے ضروری ہے کہ نقشہ ء جنگ کو ٹھیک ٹھیک سمجھا جائے بالکل اسی طرح فکری اور تہذیبی جنگ میں کامیابی کا انحصار بھی نقشہ ء جنگ اور محرکات ِ جنگ دونوں کے صحیح ادراک پر ہے آج فرانس کے اخبار ”چارلی ہیبڈو ”کے کارٹونوں کے ذریعے مغرب کے سور مائوں نے رسول رحمت ، پیغمبر انسانیت ۖ کی ذات پاک ، اسلام اور مسلمانوں کو تمسخر ، تضحیک اور اہانت کا ہدف بنا کر اور دہشت گردی کا منبع اور علامت قرار دے کر جس طرح عالمی تہذیبی جنگ کا اعلان کیا ہے اس کی اصل نوعیت کو سمجھنا اور اس کے مقابلے کے لیے صحیح حکمت عمل بنانا فی الوقت دنیائے اسلام کا سب سے اہم مسئلہ بن گیا ہے فطری طور پر مسلمانوں نے اپنے عالم گیر رد عمل سے یہ ظاہر کر دیا ہے کہ اُمت صرف مٹی کا ڈھیر نہیں ہے۔

چیچنیا سمیت فلسطین اور عالم اسلام کے مسلمانوں نے جگہ جگہ احتجاج کر کے ثابت کر دیا ہے کہ ابھی اس میں ایمان اور غیرت کی وہ چنگاری بھی موجود ہے جو طاقت کے زُعم میں بد مست ارباب اقتدار کے متکبرانہ اقدامات کو چیلنج کرنے کا داعیہ رکھتی ہے اور جس میں ایسا شعلہ جوالہ بننے کی استعداد بھی ہے جو بڑے بڑے محل نشینوں کے لیے خطرہ بن سکتی ہے اور اُن فرعونوں ، نمرودوں ، قارونوں ، شدادوں کے گھمنڈ کو خاک میں ملا سکتی ہے، فرانس کے اخبار کی شیطانی حرکت سے اُمت مسلمہ کا رد عمل فوری بھی ہے اور فطری بھی ۔۔۔۔۔۔لیکن مسئلہ محض وقتی رد عمل کا نہیں بلکہ مقابلے کی مکمل اور مربوط حکمت عملی اور ہر سطح پر اس کے مطابق پوری تیاری کے ساتھ مسلسل جدوجہد کا ہے اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ ان شیطانی کارٹونوں کے ذریعے اُمتمسلمہ کو جس تہذیبی کروسیڈ کا ہدف بنایا گیا ہے اس کے اصل نقشے اور اس جنگ کے اسلوب ، اہداف اور تمام محافظوں کو سمجھا جائے اور مقابلے کی تیاری کی جائے ، جہاں فوری رد عمل ضروری تھا ، وہیں دوسرے تمام پہلوئوں کو نظر انداز کر کے محض جذباتی اظہارِ نفرت اور غیض و غضب سے اس معرکے کو سر نہیں کیا جا سکتا اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ اُمت مسلمہ اور اس کی قیادت گہرائی میں جا کر حالات کا صحیح ادراک کرے اور مقابلے کی حکمت عملی ان تمام پہلوئوں کو سامنے رکھ کر طے کرے

یہ ہے وہ فکری ، تہذیبی اور عسکری نقشہ جنگ جس میں ۔۔۔۔30ستمبر2005ء کو ڈنمارک کے اخبار یولاند پوسٹن نے 12شیطانی کارٹون شائع کیے ،آگ کو تیز کرنے اور جلتی پر تیل ڈال کر اسے مذید بھڑکانے کے لیے جنوری 2006ء میں 22ممالک کے 75اخبارات اور رسائل میں اُنہیں دو بارہ شائع کیا گیا ۔۔۔۔۔200ریڈیو اور ٹی وی چینلوں پر اُنہیں دو بارہ بلکہ سہ بارہ نشر کیا گیا اور یہ سب آزادی اظہار ، آزادی صحافت اور سیکولر جمہوریت کے نام پر کیا گیا ۔۔۔۔یہ محض چند کار ٹون نہیں بلکہ ان کی اشاعت ایک وسیع تر مہم کا حصہ ہے پوری اسلامی دنیا کے عقیدے اور تہذیب کے خلاف بر ملا اعلان جنگ ہے اور خود پسندی اور تکبر کے بلند مقام سے استہزاء ، تذلیل اور اہانت کے ہتھیاروں سے اُمت مسلمہ کی غیرت اور عزت پر حملہ ہے ، یہ شیطانی کارٹون اتفاقی طور پر شائع نہیں کیے گئے ان کا خاص پس منظر ہے یولاند پوسٹن کے ثقافتی امور کے ایڈیٹر فلیمنگ روز (flemming Rose)نے باقاعدہ ایک منصوبے کے تھت اس فکری اور تہذیبی جنگ کا آغاز کیا تھا اس اقدام سے پہلے وہ امریکہ گیا تھا اور وہاں اسلام دشمنی کی مہم چلانے والوں کے سر خیل ڈینیئل پائیس سے خصوصی میٹنگ کی تھی۔

خبیث فطرت کے حامل ڈینیئل پائیس کا تعارف یہ ہے کہ وہ پچھلے 45 سال سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف قلمی جنگ کر رہا ہے دسیوں کتابوں اور سینکڑوں مضامین کا مصنف ہے اور فلسطینیوں کے بارے میں کھلے عام کہتا ہے کہ ان کو فوجی قوت سے نیست و نابود کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کروسیڈ کا اعلان کرنے والے سابق صدر بش نے اس خبیث فطرت اور غلیظ ذہن کے مالک کو تھنک ٹینک کا خاص مشیر بھی بنایا ہوا تھا اس کی مشاورت کے نتیجے میں فلیمنگ روز کارٹون بنا نے والے 40افراد کو پینٹا گون میں دعوت ِ شباب و شراب و کباب دی اور کہا کہ تم سب موضوعات پر کارٹون بناتے ہو اور شخصیات کا تمسخر بھی اُڑاتے ہو لیکن اسلام کو تم نے کبھی تختہ ء مشق نہیں بنایا تو اب اسلام کا چہرہ دکھانے کے لیے اپنے بُرش حرکت میں لائو ” ان 40خبیث افرادمیںسے12افراد کے کارٹون 30ستمبر 2005ء کی اشاعت میں (پیغمبر اسلام کی تصویر کا خاکہ ) کے عنوان سے شا ئع کیے گئے

آزادی اظہار پر مغرب کی اجارہ داری کا دعویٰ تاریخ کا مذاق اُڑانے کے مترادف ہے لیکن آزادی کے معنی مادر پدر آزادی نہیں ، آزادی تو صرف اس وقت ہی ممکن ہو سکتی ہے جب اس کی حدود کا واضح تعین ہو اور ایک کی آزادی دوسروں کے لیے دست درازی اور غلامی کا طوق نہ بن جائے جرمن مفکر ایمانویل کانٹ نے کہا تھا کہ ”میں اپنے ہاتھ کو حرکت دینے میں آزادہوں ، لیکن جہاں سے تمہاری ناک شروع ہوتی ہے میرے ہاتھ کی آزادی ختم ہو جاتی ہے ”۔۔۔۔۔کہنے والے کہتے اور لکھنے والے لکھتے ہیں کہ آزادی اور انارکی میں زمین و آسمان کا فرق ہے آزادی اگر حدود سے آزاد ہو جائے تو انارکی بن جاتی ہے۔

دوسروں کے حقوق پامال ہوتے ہیں آزادی اظہار کے نام پر نہ تو کسی دین و مذہب کی آزادی اور حقوق و احترام کو پامال کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی آزادی اظہار کو دوسروں کی عزت ، مقدس ہستیوں کی تضحیک اور ان کے کردار کو مجروح کرنے کا ذریعہ بننے کی اجازت دی جا سکتی ہے ، جان ، مال عزت و آبرو کی حفاظت کے فریم ورک ہی میں آزادی اظہار کار فر ما ہو سکتی ہے اقوام متحدہ کا چارٹر آف ہیومن رائٹس بھی آزادی اور حقوق کو ملکی قانون اور معاشرے کی اقدار سے غیر منسلک (delink )نہیں کرتا آخر میں عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے اس شیطانی کروسیڈ کے مقابلے کے لیے دیر پا لائحہ عمل تیار یا جائے اور اُمت مسلمہ کو ایک پلیٹ فارم پر متحد و متفق کیا جائے تاکہ ان شیطانوں کا مقابلہ کیا جا سکے مسلم حکمران بھی اب غیرت کی کڑوی گولی نگل ہی لیں اور یورپ کی غلامی کا پٹہ اپنے گلے سے اُتار کر محمد ِ عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈال لیں بقول درویش ِ لاہوری
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دہر میں اسمِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اُجالا کر دے

Nouman Qadir

Nouman Qadir

تحریر: نعمان قادر مصطفائی
ا03314403420