counter easy hit

الیکشن 2018 : صوبہ پنجاب کا سب سے بڑا اور سنسنی خیز سیاسی دنگل قومی اسمبلی کے کس حلقے اور کس شہر میں ہونے والا ہے ؟ بڑے کام کی خبر ملاحظہ کریں

لاہور ;سابق وزیراعظم نواز شریف اور اُن کی صاحبزادی مریم نواز شریف کی جمعہ 13 جولائی کو لندن سے لاہور واپسی پرا ستقبال سیاسی حلقوں میں زیر بحث ہے۔ عام تاثر ہے کہ بڑا استقبال ہو گا۔ میاں نواز شریف کے استقبال کے لئے مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے

نامور تجزیہ کار فرخ سعید خواجہ اپنی رپورٹ میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔جہاں راجہ ظفرالحق کی سربرہی میں ایک آرگنائزینگ کمیٹی تشکیل دی تھی تاہم وہ خود بھی صورت حال کی مانیٹرنگ کر رہے ہیں۔ لاہورمیں انہوں نے استقبال کے انتظامات مسلم لیگ (ن) لاہور کے صدر پرویز ملک اور ان کی ٹیم کو سونپے جبکہ ان کی مانیٹرنگ حمزہ شہباز ذمے لگائی جبکہ وہ خود بھی ائیر پورٹ پر استقبال کے لئے موجود ہوں گے۔ اُدھر پشاور میں ہارون بلور کی شہادت نے الیکشن 2018ء کو خونی بنادیا ہے شہباز شریف بدھ کو لاہور میں ایک ریلی کی قیادت کرنے والے تھے جس نے لاہور میں قومی اسمبلی کے متعدد حلقوں سے گزرنا تھا ۔جس سے لاہوریوں کو متحرک کرنے کا موقع بھی مل جاناا لیکن پشاور خود کش دھماکہ کے اگلے روزانتظامیہ کی جانب سے اس ریلی کی اجازت سے ہچکچائی شہباز شریف نے بھی 13 جولائی ہی کو فوقیت دی۔تیسرا اہم موضوع عام انتخابات میں الیکشن کمشن اور نگران حکومت کی غیر جانبداری ہے۔ تاحال مسلم لیگ (ن) کے زعماء کے مطابق مسلم لیگ (ن) کو پی ٹی آئی کے مساوی مواقع نہیں دئیے جا رہے سو فوجیوں کی نگرانی میں ہونے والے انتخابات پر شکوک و شبہات ظاہر کئے گئے۔ صفائی دینے کے لئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے غیر معمولی پریس کانفرنس کی

اور الزامات کے حوالے سے میڈیا کے سوالات کے تفصیلی جواب دئے تاہم حقیقت یہ ہے کہ باتیں خواہ کتنی کی جائیں اصل معاملہ عمل کا ہو گا۔ الیکشن کمشن کو خودمختاری کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ الیکشن کمشن نے لوکل گورنمنٹ کے اداروں کو 25 جولائی تک معطل کر دیا ہے۔ اب ہم لاہور کے قومی اسمبلی کے 14 اور صوبائی اسمبلی کے 30 حلقوں میں این اے 131کی طرفآتے ہیں جہاں لاہور کاسب سے بڑا معرکہ ہو گا ۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان اور مسلم لیگ (ن) کے چوٹی کے لیڈر خواجہ سعد رفیق آمنے سامنے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے آصف محمود، ایم ایم اے کے وقار ندیم وڑائچ اور تحریک لبیک پاکستان کے سید مرتضیٰ حسن بھی یہاں امیدوار ہیں ۔ این اے 131 آر اے بازار‘ نشاط کالونی‘ کیولری گرائونڈ‘ محمد پورہ‘ والٹن روڈ‘ پی اے ایف فالکن‘ ڈی ایچ اے ایچ او ر ایم سیکٹر‘ مین بلیوارڈ روڈ ڈی ایچ اے ،پیر کالونی‘ کوڑے پنڈ‘ والٹن روڈ خیابان اقبال‘ پیکجز مال‘ غازی روڈ ‘ کماہاں‘ رنگ روڈ‘ بیدیاں روڈ‘ کماہاں روڈ‘ ایئرپورٹ اور ملحقہ آبادیاں‘ گرجا چوک شامل ہیں۔ پی پی 161 سے مسلم لیگ ن کے امیدوار ملک فیصل کھوکھر معروف کھوکھر فیملی کے فرد ہیں ،پی ٹی آئی کے امیدوار ملک جہانگیر حسین ، ایم ایم اے کے امیر العظیم ،ہ تحریک لبیک

پاکستان کے ملک شیر زمان امیدوار ہیں۔ پی پی 162 میں مسلم لیگ ن کے امیدوار محمد یاسین سوہل پچھلے دو انتخابات میں کامیاب ہوچکے ہیں۔ پی ٹی آئی پنجاب سنٹرل کے صدر عبدالعلیم خان بھی یہاں امیدوار ہیں جو کہ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 129 سے سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کے مد مقابل ہیں۔ پیپلزپارٹی کے چودھری عاطف رفیق‘ ایم ایم اے کے عمران بٹ‘ تحریک لبیک پاکستان کے کاشف علی اور تحریک اللہ اکبر کے شاہد محمود بھی پی پی 162 سے امیدوارہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ’’شیر‘‘ اور ’’بلے‘‘ کا اپنا اپنا ووٹ بینک ہے۔ عمران خان کا سیاسی قد کاٹھ ہے۔سو ان کو یہاں خاصی اہمیت حاصل ہے۔ صوبائی حلقے پی پی 162 میں ان کے ساتھ عبدالعلیم خان کا صوبائی اسمبلی کا امیدوا ر ہونا ان کیلئے تقویت کا باعث ہے ۔ پی پی 161 میں ملک جہانگیر خان نئے امیدوار ہیں۔ عمران خان نے ٹکٹ سے محروم رہنے والے سابق صدر پی ٹی آئی لاہورولید اقبال کو اپنے اس قومی اسمبلی کے حلقے کا انچارج مقرر کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ انہیں تسلی دی گئی ہے کہ جیت کی صورت میںیہاں سے ضمنی الیکشن لڑوایا جائے گا۔ ولید اقبال خاصی محنت کررہے ہیں۔

جہانگیر ترین اور عبدالعلیم خان نے بھی اکٹھے این اے 131 کا دورہ کیا ہے جبکہ انتخابی مہم کا افتتاح کرنے خود عمران خان آئے تھے۔اب وہ ملک بھر میں پی ٹی آئی کی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ دوسری طرف کمان خواجہ سعد رفیق کے ہاتھ میں ہے۔ وہ اس حلقہ انتخاب سے دو مرتبہ رکن قومی اسمبلی اور ایک مرتبہ رکن پنجاب اسمبلی رہ چکے ہیں۔ ان کی تنظیمی صلاحیتوں کا ایک زمانہ معترف ہے۔ اس حلقہ انتخابمیں لاہور کینٹ کنٹونمنٹ بورڈ اور والٹن کنٹونمنٹ بورڈ کے وائس چیئرمین شاہد شیخ اور چوہدری سجاد احمدگجر مسلم لیگ (ن) اور خواجہ سعد رفیق کے آزمودہ کارکن ہیں ۔ جبکہ بیشتر کونسلر بھی مسلم لیگ (ن) کے ہیں گویا وہاںان کی ایک مربوط ٹیم پہلے سے موجود ہے۔ گنجان آباد علاقوں میں ایک ایک مکان میں خاندان کی کئی کئی فیملیاں آباد ہیں یوں یہاں ووٹروں کی تعداد پوش علاقوںکی نسبت خاصی ذیادہ ہے جس کا خواجہ سعد رفیق کو فائدہ پہنچے گا۔ نشاط کالونی اور چندایک دیگر علاقوں میں ان سے بعض ووٹر ناراض تھے ‘ کسی کا ترقیاتی کام مرضی کے مطابق نہیں ہوا تھا اور کسی کے بیٹے بیٹی ‘ بھتیجے بھتیجی‘ بھانجے بھانجی یا دوست کی نوکری لگوانے میں خواجہ سعد رفیق ناکام رہے تھے۔ تاہم الیکشن کے موقع پر ان ناراض دوستوں‘ساتھیوں اور ووٹروں کو منانا خواجہ سعد رفیق کو خوب آتا ہے ، اور انہوں نے یہ کام بخیروخوبی کر لیا ہے یہ ہی وجہ ہے کہ ان کی انتخابی مہم میں جو جوش اور ولولہ دکھائی دیتا ہے باقی انتخابی حلقوں میں اس کا عشر عشیر بھی نہیں۔ خواجہ سعد رفیق کے ونگز بھی پی ٹی آئی کی نسبت بہت بہتر ہیں۔ سو یہاں اس حلقہ انتخاب این اے 131میں کانٹے دار مقابلہ ہوگا۔