counter easy hit

باپ کی محبت سے سرشار، کم کرداروں کی بڑی کہانی، فلم 102 ناٹ آؤٹ!

لمبی عمر جینے کی خواہش بھی وہی رکھتے ہیں جو دراصل زندگی کو جی رہے ہوتے ہیں، کیونکہ کچھ لوگ جیتے جی مرنے کا تاثر دیتے ہیں، حالانکہ وہ بھی مرتے نہیں ہیں، بس کچھ دیر کو کسی گہرائی میں اتر جاتے ہیں، لیکن واپسی کی گنجائش تو ان کے پاس بھی ہوتی ہے۔

Dedicated to the love of the Father, Big story of low characters, movie 102 not out!اس مختصر تمہید کی وجہ کچھ اور نہیں بلکہ حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم 102 ناٹ آؤٹ ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اب یہ یاد بھی نہیں کہ میں کتنی فلمیں دیکھ چکا ہوں، ہاں، لیکن یہ پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس قدر منفرد کہانی پر بننے والی فلم شاید میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔

یہ کہانی ہے امیتابھ بچن (دتا ترایا) اور رشی کپور (بابو) کی، جو ہمیں سناتے ہیں امیت تریودی (ارے اپنا دھیرو)۔

دتا ٹھان لیتا ہے کہ وہ اس چینی شہری کا ریکارڈ توڑے گا جس کی عمر کچھ زیادہ نہیں بس دتا سے 16 سال 3 مہینے اور 28 دن زیادہ یعنی 118 سال ہے، اور یہ ریکارڈ توڑنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ مزید 16 سال زندہ رہے۔ لیکن ایسا کرنے میں ایک بڑا مسئلہ ہے، اور وہ مسئلہ ہے بابو۔

بابو (رشی کپور) دتا کا بیٹا ہے، جی ہاں 75 سال کا بابو۔ عادات کی بات کریں تو باپ بیٹا ایک دوسرے سے بالکل الگ۔ کہاں دتا کو سیر و تفریح، مزاح اور زندگی کھل کر جینے کا شوق اور کہاں بابو کو 15 منٹ سے زیادہ نہانے پر زکام کا خدشہ ہونے لگتا ہے۔ بچپن کی چادر اوڑھے بغیر نیند نہیں آتی اور تو اور روز اپنا چیک اپ کرانے ڈاکٹر کے پاس پہنچ جاتا ہے۔

کہانی شروع ہوتی ہے باپ کی بیٹے میں بدلاؤ لانے کی کوشش سے۔ بابو کے سامنے دتا ایک تجویز رکھتا ہے۔ یا تو اولڈ ایج ہوم جاؤ یا میری شرائط پوری کرو اور بہت سوچ بچار کے بعد بابو شرائط پوری کرنے پر اکتفا کرلیتا ہے۔ بس پھر کیا ہے۔ ایک کے بعد ایک شرائط جو کہ مزاح سے بھرپور ہیں۔۔ یہ شرائط کیا ہے اور کہاں ان دونوں کے درمیان ڈیڈ لاک پیدا ہوتا ہے، یہ سب آپ کو فلم دیکھنے کے بعد ہی معلوم ہوگا، لیکن یہ یقینی ہے کہ یہ سب آپ کو بہت ہی دلچسپ لگے گا۔

فلم کا پہلا حصہ بابو کو اس کے بچپن اور پھر جوانی میں لے جاتا ہے۔۔ یہ بھی دتا کی شرط کا ہی حصہ ہوتا ہے۔ دتا کا ایک ڈائیلاگ اس حصے کو بیان کرنے کے لیے کافی ہے۔ ’اولاد اگر نافرمان نکلے تو صرف اس کا بچپن یاد رکھنا چاہیے‘ ارے دھیرو کا ذکر تو رہ ہی گیا۔ فارمیسی میں کام کرنے والا دھیرو فارمیسی سے زیادہ ان 2 بوڑھوں کی زندگی کا زیادہ حصہ بنا رہتا ہے۔

101 منٹ کی فلم میں 3 مرکزی کرداروں کے ذریعے زندگی کے نشیب و فراز، اولاد کی خود غرضی، محبت، بچپن کی یادوں، باپ بیٹے کے رشتے اور زندگی کو درپیش چیلنجز کا ایسا نقشہ کھینچا گیا ہے کہ دیکھنے والا آبدیدہ ہوجائے۔ پوری فلم میں آپ کو خواتین صرف راہ چلتے یا گانوں میں دکھائی دیں گی۔ حتٰی کہ دتا کی بیوی یعنی بابو کی ماں بھی فلم میں پہلے ہی مرچکی ہے۔ بابو کے نافرمان بیٹے نے تو امریکہ جاکر پڑھائی کے ساتھ ساتھ شادی بھی کرلی ہے اور وہ آج تک نہیں لوٹا۔

فلم کے لکھاری سومیہ جوشی، ہدایتکار امیش شکلہ جبکہ موسیقی امیتابھ، سلیم سلیمان اور جارج جوزف نے ترتیب دی ہے۔ ویسے تو فلم میں مجموعی طور پر 6 گانے ہیں، مگر سونو نگم کا ’قلفی‘ اور اریجیت سنگھ کا ’بچے کی جان‘ شائقین میں زیادہ مقبول ہوا ہے۔ فلم کے گانوں سے زیادہ خاص فلم میں ٹیپ ریکارڈ پر چلنے والے دھیمی موسیقی کے وہ نغمے ہیں جنہیں ایک بار سن کر آپ بار بار سننے کی خواہش رکھیں گے۔ یقین جانیے رات کو ٹیرس پر بیٹھے وہ نغمے سن کر آپ کو بہت پیاری نیند آئے گی۔

فلم کی انفرادیت کم وسائل میں ایک جامع کہانی ہے۔ ایک گھر، کچھ قدرتی نظارے، سڑکیں اور ڈائیلاگز۔ سب سے حیرت انگیز نکتہ یہ ہے کہ محض 3 مرکزی کرداروں نے 101 منٹ کی کہانی کو اس قدر دلچسپ بنائے رکھا کہ ایک بار بھی بوریت قریب سے بھی نہیں گزری۔ بس یوں کہیں کہ جاندار کہانی اور شاندار کام۔ فلم کا اختتام بھی دلچسپ ہے۔ امیتابھ (دتا) کہانی کے اصل حقائق سے پردہ اٹھاتا ہے تو اس کے بیٹے بابو کے پیروں سے زمین نکل جاتی ہے۔ باپ بیٹے کا پیار، آخری شرط پوری ہوگی یا نہیں؟ ہوگی تو کس طرح ہوگی؟ یہ سب فلم کے دلچسپ پہلو ہیں۔

مختصر یہ کہ مزاح اور مستی کے درمیان زندگی کی سختیوں، مشکلوں اور پریشانیوں کو ایسے بیان کیا گیا ہے کہ فلم اچانک اپنا راستہ تبدیل کیے جاتی ہے۔ موت کا ایک دن معین ہے، تیزی سے دوڑتی زندگی میں ہر نیا دن کچھ نیا لیکر چلا آتا ہے۔ جو جیتا وہی سکندر، لہٰذا اس ماؤں کے عالمی دن پر تھوڑا سا وقت باپ کی محبت پر نچھاور کرنا ہو تو فلم ضرور دیکھئے گا۔