counter easy hit

صوبے میں پہلی بار

آپ کو تو پتہ ہے کہ ہم کچھ ضرورت سے زیادہ ڈرپوک واقع ہوئے ہیں چنانچہ جب بھی کوئی معاملہ سامنے آتا ہے توہمارے دل میں اندیشہ ہائے دور ودراز کا ہجوم سا ہوجاتا ہے اور کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ یہ تو ہم نے آپ کو بتا یا ہے کہ عید کے دن لوگ خوشیاں مناتے ہیں اور ہم اس خیال سے سہم سہم جاتے ہیں کہ رمضان کا مہینہ پھر صرف گیارہ مہینے دور رہ گیا ہے ۔چنانچہ گذشتہ صوبائی محکمہ ثقافت نے ایک بہت ہی اچھا اقدام کرتے ہوئے ایک جامع ثقافتی پالیسی لانچ کی اور اس پر مکالمہ کرنے کے لیے ثقافت کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے دانشوروں اور اہل الرائے کو اکٹھا کیا۔

پہلے تو اسسٹنٹ ڈائریکٹر ثقافت شہباز خان نے اس پالیسی پر بڑی خوبصورت بریفنگ دی۔ پھر مکالمہ شروع ہوا ، مختلف آرا پیش ہوئیں جن میں غالب رائے یہ تھی کہ ہمیں پالیسی کو پڑھنے کا وقت دیا جائے۔ ایک مہینے کا وقت دیا گیا ۔ آگے امید ہے بہترہی ہوگا کیونکہ موجودہ صوبائی حکومت نے پہلی بار شاعروں، فنکاروں، کھلاڑیوں اور اداکاروں کو 30, 30 ہزار ماہانہ کے حساب سے اعزازئیے بھی دیے ۔ جو درمیان میں بند ہوئے لیکن سنا ہے پھر شروع کیے جا رہے ہیں اور یہ پہلی بار ہے کہ اس محروم مظلوم اور معصوم طبقے کو سرکاری طور پر کسی نے یاد کیا ہو بلکہ گذشتہ حکومتوں نے تو ان بچاروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی۔ ایک طرح سے فنکاروں کو اشتہاری ملزم بلکہ مجرم قرار دے کر ان کو کیفر کردار تک پہنچانے کا پکا بندوبست کیا گیا۔

کچھ تو تو بہ تائب ہو کر خلوت گزین ہو گئے، کچھ نے داڑھیوں کے اندر پناہ لے لی اور زیادہ تر ادھر ادھر بھاگ گئے ۔ایسے میں موجودہ صوبائی حکومت نے دوبارہ ان بچاروں کو اکٹھا کرکے سر پر ہاتھ رکھا تو اسے انقلاب ہی کہا جائے گا ۔اصل میں یہ جو شخص ہے، پرویز خٹک جس کا نام ہے ،کچھ کرنا چاہتا ہے اور واقعی تبدیلیاں لانا چاہتا ہے اور اس نے مقدور بھر کوشش بھی کی لیکن بچارے کے ہاتھوں اور گردن میں زنجیریں پڑی ہوئی ہیں ، ان میں دو زنجیریں تو بہت پرانی ہیں۔

ایک مشہور زمانہ بلکہ رسوائے جہاں بیوروکریسی کی زنجیر جس کا طریقہ واردات یہ ہے کہ جب اوپر سے ’’راحت‘‘ چلتی ہے تو وہ برف کی سل کی طرح ہوتی ہے کہ آتے آتے مختلف ہاتھوں کی گرمی کو برداشت کرتی ہوئی جب عوام تک پہنچتی ہے تو چلو بھر پانی سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا لیکن جب مصیبت آتی ہے تو وہ برف کے گولے کی طرح آتی ہے۔

بنی گالی کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ صوبے کے عوام جیتے ہیں یا مرتے ہیں اسے تو یہاں سے کمک لے کر پاکستان کو فتح کرنے کا جنون ہے۔ ایسے میں پرویز خٹک جانتے ہوئے بھی ’’تبدیلیاں ‘‘شروع کر تو دیتا ہے لیکن لا نہیں پاتا۔ یہ ثقابت کی طرف توجہ بلکہ خصوصی توجہ بھی ان کی اس اس کوشش کا نتیجہ ہے۔ جو اب تک تو ٹھیک بلکہ بہت ٹھیک چل رہی ہے لیکن ہماری طبیعت کا قنوطی پہلوہمارا دل دھڑکائے دے رہا ہے۔

محکمے نے جو پالیسی لانچ کی ہے اوراس پر جس انداز سے کام ہو رہا ہے اگر وہ جاری رہا تو شاید صوبے میں ’’ثقافت ‘‘ مثالی بن جائے گی لیکن پھر وہی اندیشہ ہائے دور و دراز ؟کہ اس حکومت کے دن تو گنے جا چکے ہیں ،کم از کم فنکاراور فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے تو دعا کریں گے کہ دوبارہ بھی یہی حکومت بر سراقتدار آئے لیکن صوبے کی کوئی بھی کل سیدھی نہیں ہے، اس لیے اندیشہ ہائے دور و دراز تو پید ا ہوں گے ہی۔

اس موقع پر ہمارے دل میں کچھ ایسے خیالات آرہے ہیں کہ،ڈرو اس وقت سے جب تمہارے اعمال کے نتیجے میں نازل ہوجائے تم پر حکومت دینداروں کی یا قوم پرستوں کی، پھر پھرو گے تم چھپ چھپ کر کونوں میں کھدروں میں صوبے کے اور نہ ہوگا کوئی بھی ہمدرد اور والی وارث تمہارا اور مانگو گے بھیک تم بیچ بازار کے لیکن چونکہ خطرہ ہوگا تمہارے فن سے نازک ایمانوں کو اس لیے کردی جائے تنگ زمین تم پر اس صوبے کی۔

دینداروں کے بارے میں تو ہم زیادہ کچھ نہیں کہیں گے کیونکہ ان کے کاموں کے پیچھے صحیح یا غلط ایک دینی جواز تو ہے لیکن ان قوم پرستوں کا کیا  جائے جن کی ساری مقبولیت شاعروں ، صورت گروں اور فنکاروں کی رہین منت ہے کیونکہ پاکستان میں ایسی کسی بھی دوسری تحریک یا پارٹی کی مثال موجود نہیں ہے جسے اتنے زیادہ شاعروں صورت گروں ڈرامہ نویسوں اور اہل قلم نے سپورٹ کیاہو لیکن جب وقت آیا تو

پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا

حالانکہ یہی محکمہ یہی بجٹ یہی وسائل ان کے پاس بھی تھے وہ نہ جانے کس جہاں میں کھوگئے تھے۔

خیر یہ تو جو کچھ بھی تھا گزر چکا ہے لیکن ہمیں یہ سوچ ڈرائے دے رہی ہے کہ اگر ایک مرتبہ پھر بدست بچہ گان افتاد تو تیرا کیا بنے گا کالیا ۔ وہ اس عورت کا قصہ تو ہم نے آپ کو سنایا ہی ہوگا کہ شوہر اسے بہت پیٹتا تو وہ مصلے پر  جاکر اس شوہر کی درازی عمر کی دعائیں مانگنے لگتی ۔ اس سارے واقعے کی چشم دید پڑوسن نے پوچھا، یہ کیا اس نے تمہیں اتنا مارا اور تم پھر بھی اس کی درازی عمر کی دعا مانگ رہی ہو۔ بولی، میرا پہلا شوہر مجھے برا بھلا کہتا تھا، وہ مرا تو دوسرا گالیاں دیتا تھا اور اس کے مرنے پر یہ تیسرا اب مجھے مارتا ہے، ڈر مجھے یہ ہے کہ اگر یہ بھی مرگیا تو چوتھا تو مجھے مارہی ڈالے گا ۔

اس لیے فنکاروشاعر اداکار وغیرہ بھی یہی دعا کریں گے کہ

تم سلامت رہو ہزار برس
ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار

پہلی مرتبہ ان کو اچھوت کے بجائے انسان سمجھ لیا گیا ہے۔ خد اکرے، یہ سلسلہ برقرار رہے۔