counter easy hit

بی بی سی کا خصوصی تجزیہ

لاہور(ویب ڈیسک)ورلڈ کپ کرکٹ کے لیے پاکستانی کرکٹ ٹیم کا اعلان اگرچہ 14 اپریل کو ہونے والے فٹنس ٹیسٹ کے بعد ہو گا تاہم سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز پر سابق ٹیسٹ کرکٹرز اور عام لوگوں کی جانب سے اپنی پسند کے ورلڈ کپ سکواڈ چننے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان متحدہ عرب امارات میں کھیلی جانے والی حالیہ ون ڈے سیریز کو پاکستان کرکٹ بورڈ کی سلیکشن کمیٹی اور ہیڈ کوچ نے چند کھلاڑیوں کو آرام اور چند کھلاڑیوں کو آزمانے کے نام پر استعمال کیا۔کوچ مکی آرتھر اب بھی بضد ہیں کہ کپتان سرفراز احمد سمیت چھ کرکٹرز کو آرام دینے کا فیصلہ بالکل درست تھا۔وہ آسٹریلیا سے شکست کھانے والی ٹیم کی جانب سے بننے والی پانچ سنچریوں کے علاوہ نئے فاسٹ باؤلر محمد حسنین کو ایک بڑی دریافت سمجھتے ہوئے خوشی سے پھولے نہیں سما رہے ہیں۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس تجرباتی سیریز کے نتائج سے کپتان سرفراز احمد پر غیرمعمولی دباؤ نہیں بڑھ گیا کہ انھیں انگلینڈ کے خلاف سب کچھ صفر سے شروع کر کے ایک بکھری ہوئی ٹیم کو دوبارہ سے اپنے پیروں پر کھڑا کرنا ہوگا اور ایسا نہ ہو کہ اس کوشش میں انگلینڈ کے خلاف سیریز بھی آسٹریلیا کے خلاف سیریز کا ایکشن ری پلے ثابت ہو۔اس کی ایک بڑی مثال ہم جنوبی افریقہ کے دورے میں کھیلی گئی ٹی ٹوئنٹی سیریز میں دیکھ چکے ہیں جس میں سرفراز احمد موجود نہیں تھے اور ایک نئے کپتان کے ساتھ میدان میں اترنے والی پاکستانی ٹیم مسلسل 11 ٹی ٹوئنٹی سیریز جیتنے کے بعد پہلی بار شکست سے دوچار ہوئی تھی۔یہاں یہ سوال سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ آسٹریلیا کے خلاف جن کھلاڑیوں کو آرام دیا گیا تھا کیا وہ ورلڈ کپ کے لیے خود بخود منتخب سمجھے جائیں گے؟ ان کھلاڑیوں میں کپتان سرفراز احمد، حسن علی، شاہین شاہ آفریدی، شاداب خان، بابر اعظم اور فخرزمان شامل ہیں۔بظاہر اس سوال کا جواب ہاں میں ہے لیکن شاداب خان اور شاہین شاہ آفریدی کے بارے میں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ پی ایس ایل میں مکمل طور پر فٹ نظر نہیں آئے تھے۔ اب وہ کتنے فٹ ہیں اس کا اندازہ فٹنس ٹیسٹ ہی نہیں بلکہ انگلینڈ کے خلاف ون ڈے سیریز میں بھی ہو جائے گا۔ جہاں تک آسٹریلیا کے خلاف ون ڈے سیریز میں کھلاڑیوں کی کارکردگی کا تعلق ہے تو شعیب ملک، جنید خان، محمد عامر، محمد عباس، یاسر شاہ اور فہیم اشرف ایسے کھلاڑی ہیں جن کا سلیکشن آٹو میٹک نہیں کہا جا سکتا ہے۔فہیم اشرف کو دوسرے میچ کے بعد ہی سکواڈ سے دستبردار کرا کے وطن واپس بلانے کا فیصلہ کر لیا گیا تھا۔محمد عباس نے ٹیسٹ کرکٹ میں جو شاندار کارکردگی دکھائی اس کے بعد کچھ لوگوں کا یہ خیال تھا کہ انھیں محدود اوورز میں بھی آزمایا جائے۔ وہ پی ایس ایل میں ملتان سلطانز کی جانب سے صرف تین میچ کھیل پائے۔آسٹریلیا کے خلاف ون ڈے کریئر کا آغاز کرتے ہوئے انھیں تین میچوں میں کھیلنے کا موقع ملا لیکن وہ صرف ایک وکٹ حاصل کر پائے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یاسر شاہ ٹیسٹ کے فتح گر بولر ہیں لیکن ون ڈے فارمیٹ میں وہ زمبابوے کے خلاف چار سال پہلے چھ وکٹوں کی عمدہ کارکردگی کے سوا کبھی بھی کامیاب نہیں رہے ہیں۔آسٹریلیا کے خلاف پانچوں میچ کھیل کر وہ صرف چار وکٹیں حاصل کر سکے اور وہ بھی 70 رنز کی بھاری اوسط کے ساتھ۔ اگر ورلڈ کپ میں ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے بارے میں سوچا جا رہا ہے تو یہ ایک مہنگا سودا ثابت ہو سکتا ہے۔ عمراکمل نے پی ایس ایل میں چند ایک اچھی اننگز کھیل کر مکی آرتھر کو دوبارہ اپنے لیے نرم گوشہ اختیار کرنے پر مجبور کیا لیکن آسٹریلیا کے خلاف سیریز میں وہ جس انداز سے اپنی وکٹ پھینک کر گئے اس نے ان کے ورلڈ کپ میں کھیلنے کے امکان کو نہ ہونے کے برابر کر دیا ہے بلکہ ڈسپلن کی خلاف ورزی کے ایک اور واقعے کے بعد کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ عمراکمل نے اپنے پیروں پر خود ہی کلہاڑی مار دی ہے۔ ورلڈ کپ کی ٹیم میں دو کھلاڑیوں کے سلیکشن پر سب سے زیادہ نظریں ہیں یہ کھلاڑی محمد عامر اور شعیب ملک ہیں۔ شعیب ملک کو آسٹریلیا کے خلاف سیریز میں کپتانی سونپی گئی تھی لیکن تین میچوں کے بعد وہ ان فٹ ہو گئے۔ جن تین میچوں میں وہ کھیلے اس میں ان کی قائدانہ صلاحیت اور بیٹنگ کی کارکردگی دونوں پر سوالیہ نشان ہی لگا رہا اس مایوس کن کارکردگی کے بعد انضمام الحق کے لیے یہ ایک کڑا امتحان ہو گا کہ وہ موجودہ کارکردگی پر صرف تجربے اور نام کو فوقیت دیتے ہوئے محمد عامر کو ٹیم میں شامل کر سکیں۔