counter easy hit

سانحہ بلدیہ، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کا مک مکا

Baldia Factory Fire

Baldia Factory Fire

تحریر: سید انور محمود
نبیل گبول تو آج قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دینے کے بعد کہہ رہے ہیں کہ وہ ایم کیو ایم میں مِس فٹ تھے جبکہ سیاست کی تھوڑی سی سمجھ رکھنے والا پہلے دن سے یہ بات جانتا ہے کہ نبیل گبول کا ایم کیو ایم میں شامل ہونا اُنکی وقتی مجبوری تھا اور ایم کیوایم کی وقتی ضرورت۔ شاید اب وہ وقت آگیا ہے کہ مجبوری ختم ہوگئی ہو اور ضرورت پوری ہوگئی ہو۔ قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ کے فورا بعد نبیل گبول نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا کہ میں ایم کیو ایم سے بے وفائی نہیں کررہا،الطاف حسین سے تعلقات تاریخی ہیں، بہت اچھے ہیں اوررہیں گے۔ ساتھ ہی اُنہوں نے ایم کیو ایم کو للکارا بھی اور کہا کہ میں قومی اسمبلی میں خاموش نہیں بیٹھ سکتا،بولناچاہتا ہوں،میں جو کچھ کہتا ہوں اس پر قائم ہوں پیچھے ہٹنے والا نہیں،کوئی یہ نہ سمجھے کہ میں کراچی سے بھاگوں گا۔ ایم کیو ایم پر سانحہ بلدیہ سے متعلق جو الزام لگا ہے اس کی تفتیش ہونی چاہیے، چاہتا ہوں کہ بلدیہ ٹاؤن فیکٹری میں جاں بحق افراد کے اہل خانہ کوانصاف ملے۔

پاکستان میں کوئی ایک بھی ایسی سیاسی جماعت نہیں ہے جس پر کوئی نہ کوئی الزام نہ ہو، کچھ جماعتوں پر یہ الزام ہے کہ وہ کرپشن میں ملوث ہیں تو کچھ جماعتوں پر یہ الزام ہے کہ وہ دہشت گردوں کی ہمدرد ہیں، کراچی کی 85 فیصد نمایندگی کی دعویدار متحدہ قومی موومینٹ (ایم کیو ایم) پرتو اُس کی پیدایش کے وقت سے ہی الزامات لگتے رہے ہیں اور آج بھی ایم کیوایم پر ٹارگیٹ کلنگ اور بھتہ خوری کے الزامات سرفہرست ہیں، اس سے کوئی انکار نہیں کہ ایم کیو ایم ایک اسٹریٹ پاور سیاسی جماعت ہےلیکن دو کڑوڑ آبادی والے شہر کراچی میں ایم کیو ایم کی وجہ سے کراچی کے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح ایم کیو ایم کا بھی کوئی سیاسی لاحہ عمل نہیں ہے اور کسی بھی طرح کا سیاسی استقلال بھی نہیں ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ یہ ہمیشہ الزامات میں گھری رہتی ہے۔ یہ پہلے مہاجر قومی موومینٹ بنی اور بعد میں متحدہ قومی موومینٹ ، مہاجر سے متحدہ بنانے کی وجہ اپنے اوپر سے یہ چھاپ ختم کرنی تھی کہ یہ سیاسی جماعت صرف اردو بولنے والوں کی نمایندگی کرتی ہے۔ مہاجر سے متحدہ بننے کے بعد اس میں جہاں بہت سے دوسرئے سیاسی لوگ شامل ہوئے اُن میں سے ایک نبیل گبول بھی تھے جو اب یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ ایم کیو ایم پر سانحہ بلدیہ سے متعلق جو الزام لگا اس کی تفتیش ہونی چاہیے۔

الیکڑانک میڈیا اور اخبارات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ میں سانحہ بلدیہ فیکٹری از خود نوٹس کیس کے دوران رینجرز نے واقعے میں ملوث ایک ملزم رضوان قریشی کی تفتیشی رپورٹ عدالت میں پیش کردی جس کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بلدیہ ٹائون فیکٹری میں 257 افراد کی ہلاکت کاواقعہ حادثہ نہیں بلکہ قتل تھا۔ رینجرز کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ فیکٹری میں آگ بھتہ کے معاملے پر باقاعدہ منصوبہ بندی سےلگائی گئی جس میں ایک سیاسی جماعت (ایم کیو ایم) ملوث ہے ۔اگست 2012میں پارٹی کے اعلی عہدیداران نے اپنے فرنٹ مین رحمان بھولا کے ذریعے فیکٹری انٹر پرائزز کے مالکان سے 20کروڑ روپے بھتہ طلب کیا اور نہ دینے پر 11ستمبر 2012کو رحمان بھولا نے اپنے دیگر نامعلوم ساتھیوں کے ساتھ ملکر فیکٹری میں کیمیکل پھینک کر آگ لگا دی ۔ ایک سابق وزیرنے فیکٹری ماکان کے خلاف مقدمہ درج کروایا جس پر فیکٹری مالکان نے سندھ ہائی کورٹ سے ضمانت کروائی تاہم اسی وزیر نے دبائو ڈلوا کر ضمانت منسوخ کرادی ۔ معاملے میں ایک سابق وزیر اعظم نے مداخلت کی اور فیکٹری مالکان کی لاہور ہائی کورٹ سے ضمانت کروائی تاہم سندھ کے اعلیٰ حکام کے دبائو پر سابق وزیر اعظم معاملے سے پیچھے ہٹ گئے لیکن ساتھ ہی سابق وزیر اعظم کے فرنٹ مین نے فیکٹری مالکان سے مقدمہ ختم کرانے کے لئے 15کروڑ روپے وصول کرلیے۔

ایک طرف جے آئی ٹی رپورٹ آتی ہے جو ایم کیو ایم کو 257 افراد کے قتل میں ملوث کررہی ہے، تو دوسری طرف آصف زرداری اور الطاف حسین میں آٹھ ماہ بعد ٹیلیفونک رابطہ ہوتا ہے۔ دونوں رہنمائوں میں ہونے والی ٹیلیفونک گفتگو میں مجوزہ سینیٹ الیکشن، سیاسی معاملات اور سندھ حکومت کے حوالے سے بات چیت ہوتی ہے جس کی اسمبلی میں گذشتہ چند ماہ سے ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی میں روز لڑائی ہورہی تھی۔ دونوں رہنماؤں کے مابین سینیٹ کے الیکشن کے معاملات پر بھی تفصیلی اورمثبت پیش رفت ہوئی۔ نبیل گبول کی آئندہ پارٹی کون سی ہوگی؟آیا وہ اپنی پرانی جماعت پیپلزپارٹی میں واپس چلے جائیں گے جسے انہوں نے اپنے دو سیاسی حریفوں ڈاکٹر ذوالفقار مرزا اور عذیر بلوچ کی وجہ سے چھوڑا تھا یا پھر وہ عمران خان کی مسکراہٹ کا شکار ہوکر تحریک انصاف میں شامل ہوجاینگے۔ یہ توآنے وقت میں پتہ چل ہی جائے گا کہ نبیل گبول کہاں جاتے ہیں، لیکن اس وقت آصف زرداری کو ایم کیو ایم سے دو چیزوں کی ضرورت تھی پہلی سینٹ الیکشن میں مفاہمت اور دوسرئے شاید ذوالفقارمرزا کی کھلی بغاوت اور عذیر بلوچ کی گرفتاری کے باعث پیپلز پارٹی میں نبیل گبول کی واپسی تاکہ لیاری پر پیپلز پارٹی کا قبضہ جاری رہے۔

فیکٹری میں کیمیکل پھینک کر آگ لگانے کا واقعہ 2012ء کا ہے، 2013ء میں تفتیش ہوتی ہے ایک سال کے بعد ایک شخص کو گرفتار کیا جاتا ہے اور اور ایک سال کے بعد یہ جے آئی ٹی رپورٹ آتی ہے۔ سیدھی سیدھی بات یہ ہے کہ اگر اس معاملے میں ایم کیو ایم شامل ہے تو پیپلز پارٹی بھی برابر کی مجرم ہے، اس واقعے کے وقت مرکز اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور اس وقت کے وزیراعظم بھی اس میں ملوث تھے جن کے فرنٹ مین نے 15 کڑوڑ روپے وصول کیے۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے ایم کیو ایم کے اوپر پریشر تھا کہ وہ حکومت میں واپس آجائیں، سندھ کی ناکام صوبائی حکومت نے یہ ایک قسم کی تلوار رکھی ہوئی تھی کہ آپ واپس آجائیں مل کر چلیں گے۔ اب جبکہ متحدہ قومی مومنٹ نے سندھ حکومت میں شمولیت کی آمادگی ظاہر کر دی ہے اس حوالے سے ایم کیو ایم رہنما فیصل سبزواری کا کہنا تھا آصف علی زرداری نے الطاف حسین سے ٹیلی فون پر گفتگو کی اور رحمان ملک بھی ایم کیو ایم کے مختلف رہنمائوں سے ملاقاتیں کرتے رہے ہیں تاکہ سینیٹ انتخابات کے حوالے سے ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان ایک افہام تفہیم ہو۔ فیصل سبزواری سےجب یہ پوچھا گیا کہ کیا حکومت اور ایم کیو ایم میں پھر کوئی مک مکا ہوا ہے جس کی بنا پر آپ دوبارہ حکومت میں جا رہے ہیں اور یہ جو رپورٹ ہے اس کو دبایا جارہا ہے؟ اس بارے میں فیصل سبزواری کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی سے مک مکا نہیں ہوا ہے۔

آپریشن ضرب عضب اس لیے شروع کیا گیا کہ دہشت گردی کا خاتمہ کیا جاسکےجبکہ آرمی چیف اور وزیراعظم نے سانحہ بلدیہ کے معاملے پر بھی خاص توجہ دی ہے۔ کراچی آپریشن جس کے کپتان وزیراعلی سندھ ہیں اور جن پر حال ہی میں وزیراعظم نواز شریف اور عسکری قیادت عدم اعتماد کا اظہار کرچکی ہیں اس لیے ضروری ہے کہ پاک فوج اور مرکزی حکومت ملکر یہ آپریشن کریں اور سندھ حکومت کو اس آپریشن سے علیدہ کردیا جائے۔ ایک قاتل کے اعترافات جس نے الزام عائد کیا کہ بلدیہ ٹاؤن فیکٹری کا سانحہ ایم کیو ایم کی کارستانی تھی تاکہ فیکٹری مالکان کو بھتہ نہ دینے پر سبق سکھایا جا سکے۔ اور جس نے ایم کیو ایم سے وابستگی کا دعوی بھی کیا (جسے ایم کیو ایم نے مسترد کیا)۔ لیکن جے آئی ٹی کی رپورٹ آنے کے بعد ایم کیو ایم کا ردعمل جلسے جلوس اور خاصکر حیدرآباد میں جشن صبح نو کے پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے الطاف حسین نے پاکستان تحریک انصاف کی رہنما شریں مزاری اور پی ٹی آئی کی خواتین ورکر کےلیے جو زبان استمال کی اور بعد میں معافی مانگ لی ایک چیز ضرور ظاہر ہوتی ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے اور یہ ہی سبب ہےپیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان مک مکا ہوا۔ باقی رہی 257 انسانوں کے قاتلوں کو سزا کی بات تو بس اُن 257 مظلوموں کے خاندانوں کےلیے میں اور آپ صرف دعا ہی کرسکتے ہیں، اس سے پہلے بھی جےآئی ٹی رپورٹ آتی رہی ہیں کیا کسی کو انصاف ملا؟۔

Syed Anwer Mahmood

Syed Anwer Mahmood

تحریر: سید انور محمود