counter easy hit

قومی اسمبلی بدترین ہنگامہ آرائی کی نذر، مہذب ارکان پارلیمانی اٹھ کر اجلاس سے چلے گئے

WORST, CONDITION, IN, NATIONAL, ASSEMBLY, FLOUR, ON, 4TH, FEBRUARY, 2021

اسلام آباد(ایس ایم حسنین) قومی اسمبلی کا اجلاس منگل کے روز ڈپٹی سپیکر قاسم خان سوری کی صدارت میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں ممبر قومی اسمبلی سید جاوید حسنین نے آئین کے آرٹیکل 66 میں ترمیم کا بل پیش کیا۔ انھوں نے بل پیش کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں تمام محکموں بالخصوص،نیب، پولیس، نارکوٹکس، فوج اور دوسرے محکموں کے اہلکاروں کو گرفتاری سے استثنیٰ دیا جاتا ہے جبکہ پارلیمان جوکہ ملک کا سب سے سپریم ادارہ ہے۔ جوہرقسم کا آئین بناتا ہے مگر بدقسمتی سے اسی ایوان کے اراکین کو کوئی تحفظ حاصل نہیں۔ انھوں نے کہا کہ پولیس کا کوئی فرد اینٹی کرپشن اہلکاروں کو گرفتا نہیں کرسکتا،، اینٹی کرپشن والے آج تک ایف آئی اے کے کسی فرد کو گرفتار نہیں کرسکے، پاکستان کو کوئی ادارہ پاکستان آرمی کے کسی ملازم کو گرفتار نہیں کرسکتا، کسی جج کے خلاف کسی بھی جگہ یا ادارے میں مقدمہ دائر نہیں کراسکتے بلکہ اسے ادارے کے تحت قائم جوڈیشل کونسل میں شکایت درج کرانی ہوگی، ان کا کہنا تھا کہ پارلیمان پاکستان کا واحد ادارہ ہے۔ جس کے اراکین کو اے ایس آئی بھی گرفتار کرسکتا ہے، انھوں نے برطانوی آئین کی مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ کرائون کورٹ کا جج ایک جیوری کو اپنے ساتھ بٹھاتا ہے، جس میں 12 لوگ ہوتے ہیں۔ جس ملزم کے وکیل کو جیوری پر اعتراض ہو وہ اس میں سے تین لوگوں کو اعتراض کے ذریعے جیوری سے نکلوا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں آئین کے آرٹیکل 66 میں یہ ترمیم پیش کرنا چاہتا ہوں کہ اگر سینیٹ یا قومی اسمبلی کے کسی رکن کے خلاف کوئی الزام ہو تو معترض ادارہ چیئرمین سینیٹ یا سپیکر قومی اسمبلی کو خط کے ذریعے مطلع کرے۔ اور سپیکر اور چیئرمین سینیٹ ایک خصوصی کمیٹی کے ذریعے فاضل رکن کے مجرم ہونے کی تصدیق کریں اور اسکے خلاف کارروائی کی اجازت دیں۔ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ادارے جس رکن پارلیمنٹ کو چاہیں گرفتار کرلیں۔ بل پر اعتراض کرتے ہوئے ممبر قومی اسمبلی ملیکہ بخاری نے کہا کہ جیسا کہ فاضل ممبر سید جاوید حسنین نے بل پیش کرتے ہوئے ایوان کو بتایا کہ پارلیمان سپریم ادارہ ہے ، اسی بنیاد پرہم بل کی مخالفت کرتے ہیں کیونکہ جس ادارے نے تمام آئین بنانے ہیں اور اس ایوان میں عوام کے نمائندے عوامی حقوق کی راہنمائی کرتے ہیں۔ نہ کہ وہ اپنے لیے وہ تقاضے اور سہولیات مانگیں جو عام عوام کو حاصل نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ممبران پارلیمنٹ محترم ہیں لیکن وہ آئین وقانون سے بالا تر نہیں بلکہ آئین و قانون کے تابع ہیں۔ اگر کوئی ممبر پارلیمان خلاف آئین سرگرمیوں میں ملوث ہے تو اس کا فیصلہ پارلیمان نہیں بلکہ ادارے ہی کرینگے۔ ممبر قومی اسمبلی سید جاوید حسنین نے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمان کو سپریم بنانے کیلئے ممبران کو تحفظ بنیادی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ کسی کو آئین و قانون سے بالا تر نہیں سمجھتے لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ ممبران قومی اسمبلی کی اتنی بڑی تعداد میں اسمبلی میں سے 12 ارکان اچھی ساکھ کے حامل ضرور ہوسکتے ہیں جو کسی معزز ممبر پر لگے الزامات کا جائزہ لے کر فیصلہ کرسکیں۔ان کا کہنا تھا کہ آئین میں موجود سقم کی وجہ سے ممبران پارلیمنٹ طویل عرصے تک مقدمات بھگتنے کے بعد بے قصور قرار دے دیئے گئے اس لیے وہ یہ ترمیم لانا چاہتے ہیں تاکہ معزز ارکان پارلیمان کے حقوق کا تحفظ ہوسکے۔مبر قومی اسمبلی سید نوید قمر نے بل پر اپنا موقف واضح کرتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر میں ایتھکس کمیٹیاں پائی جاتی ہیں۔ اس لیے پارلیمان میں بھی ایسی ترمیم لائی جاسکتی ہے تاکہ سیاسی مقدمات کا تدارک ہوسکے۔ ان کا کہنا تھا کہ ممبران سالہاسال مقدمات بھگت رہے ہیں جبکہ ان پر کوئی چیز ثابت نہیں ہوسکی۔ ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی نے ایوان کے سامنے بل پیش کرنے کیلئے رائے شماری کروائی مگر مناسب تعداد میں بل کی حمایت نہ ہونے کی بنا پر بل کو مسترد کردیا گیا۔ دریں اثنا قومی اسمبلی نے پاکستان شہریت ایکٹ 1951 میں مزید ترمیم کا بل متعلقہ کمیٹی کے سپرد کر دیا ۔ پاکستان شہریت ایکٹ 1951 میں مزید ترمیم کا بل انجینئر صابر حسین قائم خانی نے پیش کیا۔ انہوں نے کہاکہ ڈومیسائل اور پی آر سی نادرا کے زریعے بنائے جانے چاہئیں۔پی پی پی کے نوید قمر کی جانب سے بل کی مخالفت کی گئی اور کہاکہ بل لانا ہے تو سی سی آئی میں لایا جاہے یا آئین میں ترمیم کی جاہے ،یہ بل صوبائی خودمختاری کے خلاف ہو گا تاہم وزیر پارلیمانی امور نے متحدہ رکن کے بل کی حمایت کی اور کہاکہ جعلی ڈومیسائل کا مسئلہ سندھ اور بلوچستان میں ہے ،یہ مسئلہ حل ہونا چاہئیجس کے بعد بل کو متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا ۔ قومی اسمبلی نے پاکستان ادارہ برائے پارلیمانی خدمات کے ملازمین کی تنخواہیں اور مراعات قومی اسمبلی اور سینٹ کے ملازمین کے برابر کرنے کا بل منظور کرلیا گیا۔ بل کی حکومت اور اپوزیشن دونوں نے حمایت کی۔قبل ازیں پورٹ قاسم اتھارٹی ایکٹ میں ترمیم کا بل پیپلز پارٹی کے آغا رفیع اللہ نے پیش کیا، حکومت کی مخالفت نہ کرنے پر بل قائمہ کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا ۔ عبد القادر پٹیل نے کہاکہ یہ ترمیم نہیں ہے بل پہلے ہی ایوان میں آچکا ہے۔وزیر پورٹ اینڈ شپنگ نے کہاکہ پورٹ قاسم اتھارٹی ایکٹ میں ترمیم کا جلد گزٹ نوٹیفیکیشن جاری ہوجائے گا ۔ اجلاس کے دور ان اسلام آباد میں سرکاری گھروں کو کرائے پر دینے پر توجہ دلائو نوٹس پیش کیا گیا ۔ وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ نے کہاکہ سپریم کورٹ کے حکم پر مکانات خالی کرالیے ہیں ،اب شاید دو چار گھر کرائے پر دیے گئے ہوں،ایک سروے کرایا جا رہا ہے،ہر ممکن کوشش ہے حق داروں کو گھر الاٹ کیے جا سکیں۔ احسن اقبال نے کہاکہ کاشتکاروں کو زرعی میٹر ایک ماہ میں جاری کرنے کے قانون پر عمل نہیں ہوتا۔ عمر ایو ب نے کہاکہ زرعی ٹیوب ویل میٹرز بروقت جاری کرنے پر عملدرآمد کریں گے، شہدکی مکھیوں کو پالنے اور پیداوار میں اضافے کا بل متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھیج دیا گیا،ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے قوانین سخت بنانے کے لئے نورین فاروق خان نے بل پیش کردیا،حکومت کی طرف سے مخالفت نہ کئے جانے پر ڈپٹی سپیکر نے بل قائمہ کمیٹی کو بھیج دیا۔ اجلاس کے دور ان عظمیٰ ریاض کا پاکستان میں تخفیف غربت کی مسلسل کوششوں اور نگرانی کے لئے احکام وضع کرنے کا بل پیش کیا گیا ،حکومت کی طرف سے مخالفت نہ کئے جانے پر بل قائمہ کمیٹی کو بھجوادیا گیا،سید جاوید حسنین نے بچیوں کو وراثت کو یقینی بنانے کے حوالے سے ترمیمی بل پیش کیا۔ وزیر مذہبی امور نے کہاکہ اچھا بل ہے جس پر تفصیلی بحث کی ضرورت ہے۔ شازیہ مری نے کہاکہ خواتین کے وراثتی قوانین کا تحفظ نہیں کیا جاتا، پاکستان کا آئین اور ھمارا دین خواتین کو بھرپور حقوق دیتا ہے، قائمہ کمیٹی جلد از جلد اس بل کو پاس کرکے ایوان میں بھیجے،ایوان کی اجازت سے بل پیش کرکے متعلقہ کمیٹی کو بھیج دیا گیا،قومی اسمبلی میں سابقہ فاٹا کے لئے خصوصی کمیٹی کی تشکیل کی تحریک حکومت نے پیش کردی،تحریک وزیرمملکت علی محمد خان پیش کی۔ نوید قمر نے کہاکہ صوبوں کو پورے پیسے این ایف سی کے مطابق نہیں مل رہے، اس طرح جلدبازی سے کمیٹی بنانا درست نہیں ہوگا۔علی محمدخان نے کہاکہ فاٹا انضمام نے وہاں کے عوام کو حقوق دئے ہیں، فاٹا کے ڈویلپمنٹ اور انتظامی مسائل ہیں، سابقہ فاٹا کے لئے اضافی فنڈز کا جو مطالبہ کیا گیا تھا وہ پورا کیا جائے ایوان نے سابقہ فاٹا کے لئے خصوصی کمیٹی کی تحریک منظور کرلی،سپیکر خصوصی کمیٹی کے اراکین کا تعین کریں گے، حکومت کی طرف سے تخفیف غربت کے حوالے سے خصوصی کمیٹی کی تشکیل کی تحریک پیش کی گئی ،وزیرمملکت علی محمد خان نے تحریک ایوان میں پیش کی،خصوصی کمیٹی کے اراکین کا تعین کا اختیار سپیکر کو دیدیا گیا

قومی اسمبلی نے منگل کے روز سابق فاٹا کی ترقی کے لئے ایوان کی ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دینے کی تحریک کی منظور ی دی۔ تحریک پیش کرتے ہوئے پارلیمانی امور کے وزیر مملکت علی محمد خان نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت ضم شدہ اضلاع کے عوام کی بہبود اور سماجی ترقی کے لئے پرعزم ہے انہوں نے کہا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا قبائلی اضلاع کو نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ میں تین فیصد حصہ دینے کے اپنے وعدے پر قائم ہیں۔ ایوان نے پاورٹی ایلیویشن ‘ سوشل سیکورٹی ڈویژن اور اکنامک افیئرز کے انتخابات کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دینے کے لئے بھی ایک تحریک کی منظوری دی۔ دونوں تحاریک کی کثرت رائے سے منظوری دی گئی جن میں قومی اسمبلی کے سپیکر کو کمیٹیوں کے ارکان کی تعیناتی اور ضرورت پڑنے پر ان کی تشکیل میں تبدیلیوں کا اختیار دیا گیا۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website