counter easy hit

بچوں کا گھروں میں کام کرنا ؛ مجبوری یا جرم

معصوم طیبہ پر تشدد کا کیس اس وقت سب کی زبانوں پر ہے لیکن چند ایسے پہلو بھی ہیں جن کی طرف شاید اب تک ہم نے غور نہیں کیا ۔

تین مزید خواتین نے یہ دعویٰ کیا کہ طیبہ ان کی بیٹی ہے جو دو سال پہلے لاپتہ ہو گئی تھی ۔ میرا سوال یہ نہیں ہے کہ ان کی بات درست ہے یا نہیں، مجھے فکر اس بات کی ہےکہ اگر یہ والدین درست کہہ رہے ہیں تو دو سال قبل لا پتہ ہونے والی ان کی بچیاں کہاں ہیں؟

ان ماؤں کو تو اس عمر کی ہر بچی میں اپنی بچی نظر آتی ہو گی کیونکہ وہ بچیاں دو سال پہلےاغواء کے وقت آٹھ سال کی تھیں اور میڈیا پر خبر نشر ہونے کے بعد وہ سامنےآ گئے لیکن نجانے کتنے بچے اب تک لاپتہ ہوں گے ۔ جیسا کہ ماضی قریب میں لاہور اور پنجاب کے مختلف علاقوں سے غائب ہونے والے بچوں کے بارے میں خبریں منظر عام پر آئیں تھیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ بھی کسی گھر میں طیبہ جیسی زندگی گزار رہے ہوں یا شاید اس سے بھی بری صورت حال سے دوچار ہوں ۔۔ جس کا تصور ہی تکلیف دہ ہے ۔

ایڈیشنل سیشن جج خرم پر ماضی میں بھی بد عنوانی کے الزامات لگتے رہے ہیں اور ان کو معطل بھی کیا گیا تھا۔ ایک انگریزی اخبار میں چند سال قبل شائع ہونے والی خبر کے مطابق خرم خان نے اسلام آباد کی کئی ایکڑ قیمتی زمین پر غیر قانونی قبضے کا فیصلہ ایک ایسے شخص کے حق میں جس کے وہ وکیل رہ چکے تھے۔۔ اور بالکل اسی طرح اس جج کو بچانے کے لیے اس کے ساتھی جج نے معاملے کو غلط انداز میں ختم کرنے کی کوشش کی اور طیبہ پر ظلم کرنے والی جج کی بیوی کو 30 ہزار روپے کی ضمانت پر رہا کرنے کا حکم صادر فرما دیا۔

تین: اس صورت میں جبکہ مفاد پرست افراد اس معاملے کو بھی ایک سازش کا نام دے رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ جج راجہ خرم علی خان نے پچھلے سال نومبر میں ایک بڑے بزنس مین کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا تھا اس لیے ان کے خاندان کو بد نام کیا جا رہا ہے ورنہ بہت سے گھروں میں کام کرنے والے بچوں کے ساتھ تو ایسا ہی سلوک ہوتا ہے۔

میرا ایسے افراد کو جواب ہے کہ کیا ان میں خدا ترسی ختم ہو گئی ہے ؟؟ جناب ہر بات سازش نہیںہوا کرتی ۔ کیا اس بچی کی ظلم زدہ تصاویر اور طیبہ کا خاتون مجسٹریٹ کے سامنے دیا گیا بیان جھوٹے ہیں؟ محلے والوں کا اس پر تشدد کی اطلاع دینا، اس بچی کا ایسی حالت میں ان کے گھر سے بازیاب ہونا، اور اس کے والدین کا معافی نامہ بھی جھوٹ ہے؟؟ کیا آپ انسانیت سوز ظلم کرنے والوں کو بچانا چاہتے ہیں؟؟ اور سب سے بڑھ کر یہ سوال بھی پیدہ ہوتا ہے کہ کیا آپ کے گھر میں بھی ایسا ہو رہا ہے اور اگر نہیں تو کیا آپ بچوں پر ظلم کے حامی ہیں ؟؟

چار: ایک اور تلخ حقیقت جس سے منہ بھی نہیں موڑا جاسکتا وہ یہ کہ ہم اپنے گھروں اور دفتروں میں بیٹھ کر بہت آرام سے کہتے دیتے ہیں کہ “کیسے ماں باپ ہیں جو اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو دوسروں کے گھروں میں کام کرنے بھیج دیتے ہیں ؟؟”، یا “کیسے ماں باپ ہیں جنہیں اپنے بچوں کا درد ہی نہیں ہے “۔ کوئی اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ والدین کے لیے ان کی اولاد سے زیادہ پیاری چیز کوئی نہیں ہوتی اس کے باوجود بھی اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو شاید وہ ہماری سوچ سے کہیں زیادہ پریشانی اور مشکلات سے گذر رہے ہوتے ہوں گے۔

اس بات کا اندازہ مجھے ایک گھروں میں کام کرنے والی خاتون ثمینہ سے بات کر کے ہوا جس نے اپنے بیٹے کو کہیں کام کرنے کے لئے چھوڑا ہو ا ہے۔ اس کے مطابق “زندگی” ان کے نزدیک سانس لینے، بھوک مٹانے، اور سر چھپانے کے لیے ایک جھونپڑے کا نام ہے۔ اس سے زیادہ کا تصور بھی ان کے لیے عیاشی ہے۔

ثمینہ کا کہنا تھا کہ اسے اپنے باقی تین بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے اوراس کے بیٹے کو بھی کھانے اور رہنے کی جگہ مل گئی ہے۔ “اسکول کی فیس ہم دے نہیں سکتے اور سرکاری اسکولوں میں بھیجنے سے بہتر ہے کہ وہ کام کرلیں۔”

جب میں نے اس سے طیبہ کیس کا حوالہ دیتے ہوئِے پوچھا کہ آپ کو معلوم ہے کہ جو لوگ کم عمر بچوں سے کام کرواتے ہیں ان کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے؟ تو اس نے آنسوں بھری آنکھوں سے میری طرف دیکھا اور کہا “ہم سے ہمدردی کے نام پر آپ لوگ ہماری زندگی اور مشکل بنا دیں گے۔ اگر ہمارے بچے کام نہیں کریں گے تو ہم کیا کھائیں گے، ہم غریب پیدا ہوئے ہیں اور غریب ہی مریں گے یہی ہمارا نصیب ہے۔۔”

پھر اس نے مجھ سے سوال کیا کہ ” آپ میرے بچوں کو کیا مستقبل دے سکتے ہیں؟” اس کی مایو سی دور کرنے کے لیے میں تسلی کا کوئی لفظ نہیں ڈھونڈ پائی اور نہ اس کے سوال کا جواب کیوں کہ جب ریاست ہی عوامی مسائل کے حل میں ناکام ہو جائے تو پریشانیوں میں گھرے عوام کس سے مدد کی درخواست کریں ؟ ۔۔۔۔

انسانی حقوق کے علمبرداروں کا کہنا ہے کہ اگر جج کے گھر میں ظلم ہو تو عوام کیا کریں ۔۔ کسے وکیل کریں ،،، کس سے منصفی چاہیں ۔۔۔ کیا عوام کی نمائندگی کے دعویدار عوامی مسائل سے آگاہ بھی ہیں اور قانون سازی کے ذمہ دار غریب عوام کی بھلائی کے لیے بھی کوئی قانون سازی کریں گے ؟؟

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website