counter easy hit

…..کیوں؟؟؟…..

Why

Why

تحریر : بدر سرحدی
لفظ ”کیوں”یہ علم نہیں کب کس کے ذہن میں اس نے جنم لیا اور پھر لغت میں جگہ پائی ،پھر یہ ”کیوں” وہ” کیوں ”اور کیسے استعمال میں آیا ،لیکن اگر یہ لفظ ”کیو ں”نہ ہوتا توممکن ہے آج بھی دنیا تاریک دور میں رہ رہی ہوتی ،یہ کیوں ہی تھا جس سے ماضی کے آدمزاد نے رانمائی لی اور اِسے کھولتے ہوئے فضا کی وسعتوں کو پامال کرتا ہوأقدرت کے سر بستہ رازوں کو بے نقاب کیا ،زمین کے اندر چھپے ہوئے راز معلوم کئے ،اسی کیوں کا یہ اعجاز ہے کہ انسان فضاؤں میں محو پرواز ہے ،اور سمندر کی گہرائی کی پیمائش کی ،یہ لفظ آج بھی حل کا متلاشی سامنے ایستادہ ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے آج کے اعلےٰ دماغ منصو بہ ساز اس کی اہمیت سے لاعلم و بے خبر ہیں…..

آج ہر فورم اور میڈیا میں مہنگائی کابے قابو جن آدم بو آدم کرتا ہوأ ….پرانے وقتوں کی ماورائی کہانیوں میں ایک دیو،یا جن ہوتا اور وہ انسانی بسیتوں کی طرف آدم بو آدم بو کرتا ہوأ آتا اور کسی غریب کا شکار کرتا ….اور جدید دور کا یہ مہنگائی کا بے قابو جن بھی اسی طرح آدم بو آدم بو پکارتا ہوأ ملک کے طول و عرض میں دندناتا پھرتا ہے اور غریبوں کا شکار کرتا،جب سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں دنیا بھی میں ٤٠ فیصد سے بھی زیادہ کمی ہوئی ، اور پاکستان میں محض دس ،یا پندرہ فیصد کمی کی گئی اور اس کا حکومت نے خوب ڈھنڈورا پیٹا کہ ہم نے عوام کو ریلیف دی ،نتیجہ یہ ہوأ کے پٹرول کی قلت پیدا کر دی گئی ،

معزز قارئین میں نے اپنے اک حالیہ مضمون میں لکھا ،کہ پاکستان میں قیمتوں میں کمی نہی ہو سکتی بلکہ سچ یہ ہے کہ دنیا کی کوئی بھی طاقت ملک سے مہنگائی کے جن کو واپس بوتل میں بند نہیں کر سکتی…..کیوں؟٦٠ کے دہائی میں پٹرول ڈھائی روپئے کا گیلن اور ڈیزل سوا روپئے کا گیلن تھا ابھی لیٹر کا پیمانہ رائج نہیں ہوأ تھا اور کرنسی مضبوطی اپنے پاؤں پر کھڑی تھی ،تب آٹا دس روپئے کا من ….اور اَسی کی دھائی تک ڈیزل کی قیمت تین روپئے لیٹر تک پہنچی ٦٦ ئمیں جنگ کے بعد گندم کی قیمت میں معمولی چار روپئے من اضافہ ہوأ،حالات ایسے کیوں تھے ،اس کی خاص بات کہ اسمبلیوں میںابھی تک سیاستدان تھے ،خاص کر کوئی تاجر صنعتکا ر حکومت میں نہیں تھا ،

پہلی مرتبہ ٨٢ء میں میاں نواز شریف بڑے صنعت کار وتاجر پنجاب کے وزیر خزانہ آئے، تو یہیں سے ملک و قوم کی بد بختی کا دور شروع ہوتا ہے ، کہ اُن کے نزدیک صرف تاجر برادری ہی کے مفادات تھے، ٨٨ء میں پنجاب کے وزیر اعلےٰ آئے ،٩٠ء کی دھائی میں اسمبلیوں میں تاجر و صنعت کار،سرمایہ دار کی اکثر یت آگئی ،پھر قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا آرہا ہے ، کسی بھی چیز کی اپنی کوئی قیمت نہیں ہوتی …قیمت کا تعلق ،خریدارکی ضرورت اور تاجر کیا ضرورت کے ٹکراؤ سے قیمت جنم لیتی ہے پٹرول کی قلت کے دنوں میں یہ خبریں بھی تھیںکے پٹرول ٣٠٠ ،روپئے لیٹر ضرورت مند نے خریدا، آج یہ قیمت پانچ برس کی کم ترین سطح پر آگئی اور حکومت ڈھول بجا کر کمی کا کریڈٹ لینا چاہتی مگر فائدہ تو حکومت کو ہوأ کہ کس صفائی سے اپنا منافع برقرار بلکہ زیادہ سیلز ٹیکس ٢٧فی صد تک لے گئی … ادھر سی این جی ایسوسی ایشن کا کہنا کہ حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ سی این جی کی قیمت پٹرول سے ٣٠ فیصد کم ہوگی مگر ایسا نہیں ہوأ… وزیر اعظم خود اعلان کرتے ہیں کہ قیمتوں میں کمی سے عوام کو ریلیف ملے گی ،جبکہ حکومت کا اس میں کوئی کمال نہیں ۔یہ تو عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں کم ہوئیں ہیں ،ریلیف تو تب ہوگی کہ مقامی اجناس کی قیمتیں بھی کم ہوں اور یہ ہو نہیں سکتا ،تندور پر روٹی بدستور چھ روپئے،سادہ نان دس روپئے جب نان پانچ کا ہو تو پھر ریلیف ہو گی ورنہ …،

ہر قسم کے پھل سبزیاں اور دیگر ہر ضروریات زندگی اُسی طرح مہنگی تو ریلیف کہاں پاکستان میں قیمتیں کم ہوں یہ محض شیخ چلی کا خواب ہوگا کیوں ؟میں نے کہا نا کہ دنیا کی کوئی طاقت قیمتیں کم نہیں کر سکتی اِس لئے کہ حکومت تاجر اور جاگیردار پر مشتمل ہے اور جو تاجر حاصل کر رہا ہے یا حاصل کر چکا ہے اُس سے کبھی دستبردار نہیں ہو گا،٣٠،برس قبل تک دسمبر میں گندم کی قیمت میں دو یا تین روپئے من کا اضافہ ہوتا ،اور پھر تمام اجناس جو بنیادی ضرورت کی ہیں میں معمولی اضافہ ہوتا جو مارچ،اپریل میں واپس ہو جاتا ٢٠٠٨ میں جاگیر دار وزیرآعظم نے حلف لیتے ہی گندم کی قیمت میں ٦٠٠ ،روپئے من کا اضافہ کر دیا اس ملک کی بنیادی ضرورت گندم جو تمام اجناس کا محور بھی ،اس کی قیمت میں اضافہ کا مطلب تمام اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہونا،گندم کی قیمت میں تاریخ کا اتنا بڑا اضافہ مگر پارلیمنٹ کے دونوں ایوان گنگ رہے کسی ایک ممبر پارلیمنٹ نے یہ نہیں کہا جناب کیا کر رہے ہیں ،اور وہی گندم تاجر کی مرضی پر فروخت ہوتی ہے،ساتویں عشرے یہی آٹا ایک روپئے کا چار سیر تھا ،آج وہی آٹا غریب ٤٠ اور ٤٥ ،روپئے کلو خریدنے پر مجبور ہے ….کیا خیال ہے پٹرول کی قیمت بے شک ایک روپیہ فی لیٹر تک ہی کیوں نہ گر جائے اس سے آٹے کی قیمت پر کوئی فرق نہیں ہوگا، پاکستان میں جو کوئی جومفاد حاصل کر چکا ہے یا کر رہا ہے اُس سے کبھی دستبردار نہیں ہوگا ،اس لئے یہ کہنا کے پاکستان میں کبھی قیمتیں کم نہیں ہو سکتیں کہ گند م کی قیمت میں کمی نہیں ہو سکتی ،چاہے نون ،پی پی پی ،پی ٹی آئی،ق ، اے این پی ،یابڑے بلند بانگ دعوے کرنے والی کوئی دینی جماعت ہی کیوں نہ ہو اقتدار میں آ جائے ….

نون والے ا ب ٢٠١٨ کا سبز باغ دکھانے لگے ہیں …. مگرجب تک خدا کی زمین ناجائز قابضین واپس نہیں لی جاتی ،اور یہ ممکن نہیں ملک کے غریب عوام کا برا حال ہوگا ، آج یہ ٦٠ فیصد تک غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ، ١٨ء ،تک ٩٠ فیصد خطِ ا فلاس سے نیچے چلے جائیں گے جن کی کبھی کوئی آواز نہیں ہوگی اور ….. ! اہل فکر و دانش کا قول ہے ،جب تاجر ،جن کے دلوں پر دولت کی حکمرانی ہو ،کسی ملک وقوم کے حکمران بن جائیں تو قوم تباہ برباد ہو جاتی ہے ….، گیس نعمت خداوندی ہے اِس کا تعلق تو عالمی منڈی سے نہیں ، اِس کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں ”کیوں ” اور ا آج پریشر کم ہے عوام چیخ رہے اور سڑکوں پر احتجاج کرتے ہیں، کیا کبھی ڈیفنس جیسی بستیوں کے لوگ بھی گیس پریشر کی کمی یا لوڈ شیڈنگ کے لئے سڑکوں ہر آئے… پریشر میں کمی کے باوجود خدا کی بستیوں کا عام گھریلو بل ہزاروں میں ”کیوں ”یہ تو نعمت ِخداوندی ہےبلا تبصرہ قارئین خود غور کریںمیاں صاحب نے کیا فرمایا کیا زمینی حقائق …. گزشتہ روز اپنے رائیونڈ محل میں وزیر اعلیٰ شہباز شریف سے گفتگو کرتے ہوئے جناب میاں نواز شریف نے فرمایا،تیل کے نرخوں میں مسلسل کمی سے اشیائے خورد نوش کی قیمتیں بھی عوام کی دسترس میں آگئی…صوبائی حکومتیں حالیہ کمی کا فائدہ بھی حقیقی معنوں میں عوام تک منتقل کرنے کے لئے سخت اقدامات اٹھائیں

Badar Sarhadi

Badar Sarhadi

تحریر : بدر سرحدی