counter easy hit

چاچا قمرو اور مسلم لیگ ن کی ورکر نوازی

PML N

PML N

تحریر : ایم آر ملک ٍ
نام اُس کا قمر الدین عادل ہے مگر سب اُسے چاچا قمرو کہتے ہیں چاچا قمرو کا یہ شیوہ ہے کہ و ہ دوسروں کے سُکھ کو اپنا دُکھ سمجھتا ہے سیاست ہمیشہ سے چاچا قمرو کا پسندیدہ موضوع ہے ہر دل عزیز ہونے کے باعث چاچا قمرو ایک کثیر ووٹ بنک رکھتا ہے علاقہ کے ہر سیاست دان کی یہ خواہش ہوتی ہے الیکشن میں چاچا قمرو اُس کے ساتھ ہو مگر ایسا ہونا ناممکنات میں ہے کیونکہ چاچا قمرو بڑا خود دار ہے انا پرست ہے وہ الیکشن میں کردار والے اُمیدوار کا ساتھی بنتا ہے چاچا قمرو کا سیاسی پس منظر یہ رہا ہے کہ جب جنرل ضیاء نے مرحوم محمد خان جونیجو کے اقتدار کی بساط لپیٹی اور مسلم لیگ ن وجود میں آئی تو چا چا قمرو قائد اعظم کی مسلم لیگ کے زعم میں میاں نواز شریف کا دم بھرنے لگا میان نواز شریف کا چاچا قمرو اتنا گرویدہ ہو کہ پاکستان میں وہ میان میاں نواز شریف کو قائد اعظم ثانی سمجھتا اُس کا موقف تھا کہ پاکستان کی خوشحالی کی ضمانت میاں نواز شریف کے سوا کوئی اور نہیں ہو سکتا معشت کی ہچکولے کھاتی کشتی کو اگر کوئی کنارے لگا سکتا ہے تو وہ مسلم لیگ ن کی قیادت ہے

یہی نہیں پبلک مقامات پر اگر کوئی ناقد یا کسی اور پارٹی کا ورکر مسلم لیگ ن کی قیادت پر تنقید کرتا تو چا چا قمرو اُس کا گریبان پکڑ لیتا اُس کا کہنا تھا کہ نظریاتی ورکر اپنی قیادت پر تنقید کو کبھی برداشت نہیں کرتا اور جو پارٹی ورکر اپنی پارٹی قیادت پر تنقید سنتا ہے اُس کا پارٹی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا وقت کا پہیہ اپنی چال چلتا رہا مسلم لیگ ن اقتدار میں رہی یا اپوزیشن میں چا چا قمرو اپنے مفادات پر پائوں رکھ کر وفا کی انتہائوں پر کھڑا رہا اُس کے پائے استقلال میں لغزش نہ آئی اُس کے نظریات پر ضرب لگانے والے ناکامی سے دوچار ہوئے دلائل کی طاقت بھی اُس کے نظریات کا رُخ نہ موڑ سکی

12اکتوبر1999کو جب سابق صدر مشرف نے مسلم لیگ ن کے اقتدار کی راسیں کاٹ دیں تو چاچا قمرو سراپا احتجاج بن گیا وہ مشرف کے اس اقدام کے خلاف باغی بن گیا قیادت نے جب اٹک کے قلعہ میں شاہ عبداللہ کے نمائندے سعد حریری کے ساتھ خود ساختہ جلاوطنی کا معاہدہ کیا تو بھی چاچا قمرو اپنے ساتھی ورکروں کے ساتھ جنوبی پنجاب میں وفائوں کی نہ ٹوٹنے والی زنجیر بن گیا ایک وقت ایسا آیا کہ قیادت جدہ سدھار گئی اور پس منظر میں چاچا قمرو جیسے لاوارث ورکر یک و تنہا رہ گئے چاچا قمرو در اصل مشرف حکومت کے خلاف ایک باغی کردار تھا چا چا قمرو کو جب کوئی یہ باور کراتا کہ مسلم لیگ ن کی قیادت ایک معاہدے کے تحت جلاوطن ہوئی ہے تو چاچا قمرو کا ذہن اس منطق کو قبول کرنے کیلئے کسی طور تیار نہ ہوتا وہ کہتا کہ ہمیشہ جمہوریت کو دوام ہوا کرتا ہے آمریت کو چونکہ جمہور قبول نہیں کرتی اس لیئے آمرانہ اقتدار پانی کا بلبلہ ہوتا ہے پبلک مقامات پر وہ اب بھی میاں نواز شریف کا مقدمہ لڑتا وہ ماضی کی طرح لوگوں کو یہ باور کرانے میں لگا رہتا کہ دہشت گردی کی جس دلدل میں ہمیں مشرف نے آدھکیلا ہے اُس دلدل سے نکالنے کی صلاحیت میاں نواز شریف جیسے قائد میں ہی ہے

پھر یکایک میاں نواز شریف کے واپس آنے کی خبریں آنے لگیں چاچا قمرو کی خوشی دیدنی تھی وہ احباب کو بھاگ بھاگ کر بتا رہاتھا”میرا قائد واپس آرہا ہے”حسب وعدہ میاں نواز شریف نے 9ستمبر 2007اتوار کی رات ساڑھے گیارہ بجے روانہ ہونا تھا مگر چا چا قمرو نے ن لیگی احباب کے ساتھ ایک روز قبل ہی رخت ِ سفر باندھ لیا اسلام آباد روانہ ہونے والی گاڑی رستہ میں جس سٹاپ پر رکتی چا چا قمرو گلہ پھاڑ کر میاں نواز شریف زندہ باد کے نعرے لگاتا 10ستمبر2007کو جب میاں نواز شریف نے صبح پونے 9بجے اسلام آباد کے انٹر نیشنل ایئر پورٹ پر قدم رنجہ فرمائے تماشائے آہن و سنگ دیکھنے کے مشتاق چا چا قمرو کی قیادت میں نظریاتی ورکروں کی کثیر تعداد اپنے قائد کے والہانہ استقبال اور دیدار کی ایک جھلک دیکھنے کی خاطر موذن کے الصلٰوة خیر من النوم کہنے سے قبل ہی اپنی صفیں بنا چکے تھے

والہانہ عقیدت ہو تو جذبات کے آگے بند نہیں باندھا جا سکتا چا چا قمرو بھی ریاستی پولیس کی مزاحمتیں عبور کرتا ہوا اپنے ہدف کی طرف بڑھتا رہا قیادت کو واپس جدہ ڈی پورٹ کردیا گیا بھڑکے ہو ئے جذبات کے ساتھ کچہری چوک میں چاچا قمرو کی والہانہ عقیدت پر پولیس نے فائرنگ کردی چا چا قمرو کی ٹانگ میں گولی لگی اور وہ شدید زخمی ہو کر گر گیا احباب نے اُٹھایا ابتدائی طبی امداد کیلئے قریبی مرکز صحت لایا گیا مگر میاں برادران کیلئے گولی کھانے کے بعد کسی مسلم لیگی رہنٍما کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ وہ ایک نظریاتی ور کر کی دل جوئی کیلئے آتا چا چا قمرو کو مشکل حالات میں واپس لیہ لایا گیا وہ دو ماہ تک ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کے ایک بستر پر موت و حیات کی کشمکش میں پڑا رہا اُس کی آنکھیں کسی مسلم لیگی رہنما کی راہ تکتے تکتے پتھرا گئیں اور جب وہ واپس اپنے گھر آیا تو کاروبار تباہ ہو چکا تھا گزشتہ روز پنجاب میں مسلم لیگ ن کے سابقہ دور اقتدار میں سات وزارتوں کے مزے لوٹنے والے ایک سابق وزیر ملک احمد علی نے یہ بیان داغا کہ ہم نے نظریاتی ورکروں کو اُن کا جائز مقام دیا تو مجھے چا چا قمرو کی کہانی یاد آئی مجھے ملک احمد علی اولکھ سے یہ پوچھنا ہے کہ وہ کو نسے نظریاتی ورکروں کی بات کرتے ہیں نظریاتی ورکر تو بشارت رندھاوا اور عابد انوار علوی سے زیادہ کوئی بھی نہیں

آپ کی سات وزارتوں میں کونسے نظریاتی ورکر کو اُس کا جائز مقام ملا کیا آپ نے چاچا قمرو کی کسی مشکل کا مداوا تو دور کی بات اُسے میاں نواز شریف کی خاطر لگنے والی ریاستی پولیس کی گولی کے زخم پرکبھی بات کی اندر کی بات یہ ہے کہ عابد انوار کی جگہ آپ اپنے بھائی کی چیئرمینی کیلئے پر تول رہے ہیں اور اسی طرح بشارت رندھاوا کو ہٹانے کے در پے ہیں مگر آپ کو ایک بات بتا دوں جب نظریاتی ورکروں کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرکے پھینک دیا جائے تو اقتدار کا سورج کبھی طلوع نہیں ہوتا اور مسلم لیگ ن کے ساتھ آئندہ یہی کچھ ہونے والا ہے

M.R.Malik

M.R.Malik

تحریر : ایم آر ملک ٍ