counter easy hit

پیشگی اطلاعات کے باوجود سری لنکن حکومت حملوں کو کیوں نہیں روک سکی؟

سری لنکا: سری لنکا کی حکومت نے گذشتہ اتوار کو ملک میں ہونے والے خودکش حملوں کے بارے میں خفیہ اطلاعات کو نظر انداز کیے جانے کا اعتراف کیا ہے۔ مسیحی تہوار ایسٹر کے موقع پر تین گرجا گھروں اور تین ہوٹلوں میں ہونے والے ان دھماکوں میں اب تک 359 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی جاچکی ہے جبکہ 500 سے زیادہ افراد ان حملوں میں زخمی ہوئے تھے۔ سری لنکا کی پارلیمان کو بتایا گیا ہے کہ اس ماہ کے آغاز میں ان حملوں کے بارے میں انڈیا کی جانب سے فراہم کردہ انٹیلیجنس تنبیہ کو حکام نے درست انداز میں آگے نہیں پہنچایا۔ملک کے صدر میتھریپالا سریسینا نے اس سلسلے میں سیکریٹری دفاع اور پولیس کے سربراہ کو برخاست بھی کردیا ہے۔ ان خودکش دھماکوں میں ملوث افراد کی شناخت بھی کر لی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ نو حملہ آوروں میں سے آٹھ سری لنکن شہری تھے۔ حملہ آوروں کے مبینہ سرغنہ کی بہن نے اپنے بھائی کے اقدام کی سخت مذمت کی ہے۔ سری لنکا کے وزیراعظم نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ اُن بم دھماکوں کے پیچھے ہو سکتی ہے۔ رانیل وکرماسنگھے نے کہا کہ حکومت کا خیال ہے کہ اتوار کو ہونے والے دھماکے بغیر بیرونی مدد کے نہیں ہو سکتے تھے۔ دولت اسلامیہ نے منگل کو ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی لیکن اس کے شواہد فراہم نہیں کیے اور سری لنکن حکام اس دعوے کی حقیقت جاننے کے لیے کوشاں ہیں۔ سری لنکا کے نائب وزیرِ دفاع روان وجےوردنے نے پارلیمان میں اپنے خطاب میں کہا کہ ’ہمیں اس کی ذمہ داری لینی پڑے گی کیونکہ بدقسمتی سے اگر خفیہ اطلاعات صحیح افراد کو دے دی جاتیں تو میرے خیال میں ان (حملوں) سے بچا جا سکتا تھا تا کم از کم ان کا اثر کم کیا جا سکتا تھا۔