counter easy hit

انتخابات 2018 میں جیت کس کا مقدر ہو گی؟

سیالکوٹ: پاکستان مسلم لیگ کے مرکزی رہنما و امیدوار این اے 73 خواجہ محمد آصف نے کہا کہ 25 جولائی شیر کی فتح کا دن ہے‘ پاکستان کی غیور عوام شیر پر مہر لگا کر محمد نواز شریف سے اپنی وابستگی کا ثبوت دیں گے، محمد نواز شریف اور مریم نواز عوام کی محبت میں وطن واپس آئے تاریخ گواہ ہے جب بھی محمد نواز شریف کو اقتدار سے الگ کیا گیا وہ پہلے سے زیادہ طاقت کے ساتھ اقتدار میں آیا۔ انہوں نے کہا کہ پہلے دور حکومت میں نواز شریف نے ملک کو موٹروے دی، دوسرے میں اٹیمی قوت بنایا اور تیسرے دور میں سی پیک کا منصوبہ دیا اور لوڈ شیڈنگ کے اندھیروں سے ملک کو نکالا اور بحران کی شکار صنعت کے سہارا دیا۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے امیدوار پی پی 37 محمد منشاء اللہ بٹ اور امیدوار پی پی 36چودھری محمد اکرام کے ہمراہ یوسی حاجی پورہ، پریم نگر، شہاب پورہ اور پکا گڑھا میں مختلف انتخابی کارنر میٹنگز سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ واضح رہے کہ سیالکوٹ میں قومی اسمبلی کے پہلے حلقے این اے 110 (نئے این اے 72) سے تعلق رکھنے والے خواجہ آصف ایک پُرانے سیاسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ان کے والد خواجہ محمد صفدر آل انڈیا مسلم لیگ کے رہنماؤں میں سے ایک اور تجربہ کار پارلیمنٹیرین تھے۔ اس خاندان کو گزشتہ کئی دہائیوں سے سیالکوٹ کی کشمیری برادری کی حمایت حاصل ہے شاید یہی وجہ ہے کہ گزشتہ لگ بھگ تین دہائیوں خواجہ آصف کو آج تک کوئی ہرا نہیں پایا۔اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد خواجہ آصف نے سیاست کا باقاعدہ آغاز 1991ء میں بطور سنیٹر منتخب ہو کر کیا تھا جس کے بعد وہ 1993ء میں مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پر الیکشن لڑتے ہوئے پہلی بار رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔اس کے بعد وہ 1997ء، 2002ء 2008ء اور 2013ٰء کے انتخابات میں مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پر مسلسل کامیابیاں حاصل کرتے رہے۔نواز شریف کے 1997ء سے 1999ء تک کے دورِ حکومت میں انھیں نجکاری کمیشن کا چیئرمین تعینات کیا گیا۔یہ حلقہ بنیادی طور پر ن لیگ کا گڑھ ہے اور بڑے سے بڑے کٹھن حالات میں بھی اس حلقے کی سیاست پر کوئی دوسری جماعت یا اُمیدوار اثر انداز نہیں ہو سکا۔2002ء میں مسلم لیگ نون کی مقامی قیادت ملک بدر تھی اور مشرف کی چھتری تلے پروان چڑھنے والی قاف لیگ کا بول بالا تھا لیکن اس کے باوجود خواجہ آصف سیالکوٹ شہر سے نون لیگ کے ٹکٹ پر میدان میں اُترے اور کامیاب ہوئے۔ان انتخابات میں خواجہ آصف کے مقابلے میں چار اُمیدوار تھے تاہم انھوں نے قاف لیگ کے محمد ریاض کو تقریباً چار ہزار ووٹوں کے فرق سے شکست دی۔خواجہ آصف کو سیالکوٹ چیمبر آف کامرس کی حمایت حاصل تھی تاہم میاں محمد ریاض حکومتی سرپرستی کے باوجود عوام کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہے لیکن کشمیری برادری نے ان کی حمایت کی تھی۔ 2008ء کے عام انتخابات میں اگرچہ پیپلز پارٹی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا تھا مگر اس کے باوجود خواجہ آصف پی پی پی کے ٹکٹ ہولڈر زاہد بشیر چوہدری اور قاف لیگ کے محمد ریاض کو بھاری مارجن سے شکست دینے میں کامیاب رہے تھے۔اس بار بھی انہیں چیمبر آف کامرس اور کشمیری برادری کی مکمل حمایت حاصل تھی۔2008ء میں جب کچھ وقت کے لیے مسلم لیگ نون پاکستان پیپلز پارٹی کی اتحادی بنی تو خواجہ آصف کے پاس پیٹرولیم، قدرتی وسائل اور کھیل کی وفاقی وزارتیں رہیں۔2013ء کے انتخابات میں نون لیگ کی مقبولیت عروج پر تھی اور لوگ پیپلز پارٹی کی پالیسیوں سے نالاں تھے۔ اس بار خواجہ آصف کے سامنے تحریکِ انصاف کے مرکزی رہنما عثمان ڈار تھے جنہوں نے ان کا بھرپور مقابلہ کیا مگر لگ بھگ 21 ہزار ووٹوں سے ہار گئے۔ان بار بھی خواجہ آصف کو اپنی برادری کے ساتھ ساتھ چیمبر آف کامرس کی حمایت بھی حاصل تھی۔ان انتخابات کے بعد نون لیگ اقتدار میں آئی اور نواز شریف تیسری بار رکنِ قومی اسمبلی بنے تو انہیں دفاع اور پانی و بجلی کی وزارتوں کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔گزشتہ سال نواز شریف کی نااہلی کے بعد شاہد خاقان عباسی وزیرِ اعظم بنے تو خواجہ آصف کو ملک کا نیا وزیر خارجہ مقرر کیا گیا تھا اور وہ نو ماہ تک اس عہدے پر فائز رہے۔خیال رہے کہ خواجہ آصف کی نااہلی کے لیے عثمان ڈار نے ہی عدالت سے رجوع کیا تھا۔اب جبکہ عدالت کی طرف سے خواجہ آصف کی نااہلی کو ختم کر دیا گیا ہے تو 25 جولائی کو اس حلقے میں عثمان ڈار اور خواجہ آصف کے درمیان کڑے مقابلے کی توقع ہے۔سابقہ انتخابات کے نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس بار بھی خواجہ آصف ہی فیورٹ ہیں تاہم سیاسی ماہرین کے مطابق عثمان ڈار بھی اتنی آسانی سے ہارنے والے نہیں۔