counter easy hit

آئی ایس آئی نے یہ بات کس جج کو کہی؟

راولپنڈی: جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہاہے کہ آئی ایس آئی کے لوگ مختلف جگہ پر پہنچ کر اپنے مرضی کے بینچ بنواتے ہیں ، آئی ایس آئی والوں نے میرے چیف جسٹس کو اپروچ کیا اور کہا کہ الیکشن تک نوازشریف اور اس کی بیٹی کو باہر نہیں آنے دینا۔

جسٹس شوکت صدیقی نے راولپنڈی بار ایسوسی ایشن سے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ میرے چیف جسٹس کو کہا گیا کہ شوکت عزیز صدیقی کو بینچ میں شامل مت کرو ، میرے چیف جسٹس نے کہا کہ جس بینچ سے آپ ایزی ہیں ہم وہ بنا دیں گے ۔انہوں نے کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ احتساب عدالت کی ہر روز کی پروسیڈنگ کہاں پر جاتی رہی ہیں، معلوم ہے کہ سپریم کورٹ کون کس کا پیغام لے کر جاتا ہے، احتساب عدالت پر اسلام آباد ہائی کورٹ کا ایڈمنسٹریٹو کنٹرول کیوں ختم کیا گیا؟ عدلیہ کی آزادی سلب ہو چکی ہے، آپ کی حویلی بندوق والوں کے کنٹرول میں ہے۔جسٹس شوکت صدیقی نے کہا کہ مجھے نوکری کی پرواہ نہیں، یہ کہا گیا کہ یقین دہانی کرائیں کہ مرضی کے فیصلے کریں گے تو آپ کے ریفرنس ختم کرا دیں گے ، مجھے نومبر تک نہیں ستمبر میں چیف جسٹس بنوانے کی بھی پیش کش کی گئی۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ میں جب بھی کوئی اہم فیصلہ دیتا ہوں ایک مخصوص گروہ کی جانب سے مہم چلا دی جاتی ہے۔ میرا دامن صاف ہے اسی لیے سپریم جوڈیشل کونسل کو درخواست دی کہ میرا اوپن ٹرائل کریں۔ انہوں نےکہا کہ مجھے نومبر میں نہیں ستمبر میں چیف جسٹس بنانے کی پیشکش کی گئی لیکن ترقی کے لیے کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے۔مجھے کہا گیا کہ یقین دہانی کروائی کہ آپ مرضی کے فیصلے کریں گے تو آپ کا ریفرنس ختم کروا دیں گے۔انہوں نے کہا کہ آج آزاد میڈیا پر بھی اپنی آزادی کھو کر گٹھنے ٹیک چکا ہے۔ جج نوکری سے نہیں انصاف، عدل اور دلیری کا مظاہرہ کرنے سے بنتا ہے۔ راولپنڈی ڈسٹرکٹ بار میں خطاب کرتے ہوئےاسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ بار میں آکر خود کو احتساب کے لیے پیش کرنے کی عرصے سے خواہش تھی۔میرا احتساب میری بار ہی کر سکتی ہے۔میرے اوپر آج تک کوئی کرپشن کا ایک الزام بھی ثابت نہیں کر سکا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ وہی جج صاحب ہیں جن کے اوپر کرپشن ریفرنس زیر سماعت ہے۔ اگر کرپشن نظر آئے تو بار مجھ سے استعفے کا مطالبہ کرے میں مستعفی ہو جاؤں گا۔ تمام وکلا کو دعوت دیتا ہوں کہ آ کر دیکھیں مجھ پر کرپشن کے جو الزامات عائد کیے گئے ہیں ان مین کتنی صداقت ہے۔جسٹس شوکت نے کہا کہ وکلا جرائم میں کمی کا سبب بنیں سہولت کار نہ بنیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا موازنہ امریکہ یا یورپ کے ساتھ نہیں ہو سکتا،،پاکستان کا موازنہ بھارت،، بنگلا دیش یا سری لنکا کےساتھ ہوسکتا ہے۔ بھارت میں ایک دن کے لیے سیاسی عمل نہیں رُکا کبھی مارشل لا نہیں لگا۔ 2030ء میںبھارت ایک بڑی معیشت ہوگا اور ہم پیچھے کی طرف جا رہے ہیں۔بھارت میں بھی کرپشن اور بدانتظامی ہے لیکن پھر بھی بھارت ترقی کی راہ پر ہے۔موجودہ ملکی حالات کی 50 فیصد ذمہ داری عدلیہ اورباقی 50 فیصد دیگر اداروں پرعائد ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تک قانون کے طلبا کو اس بات کا علم ہی نہیں ہے کہ جسٹس منیر نے کیا کردار ادا کیا تھا ؟جسٹس منیر کا کردار ہر کچھ عرصے کے بعد سامنے آتا ہے۔یار رہے کہ اس سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ میں لا پتہ افراد کے کیس کی سماعت کے دوران جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس میں کہا تھا کہ ججز کا پیچھا کیا جاتا ہے،ججز کے فون ٹیپ کئے جاتے ہیں اور ان کی جان کو بھی خطرہ ہے۔جسٹس شوکت عزیز کے ان ریمارکس نے ہلچل مچا دی تھی۔