counter easy hit

فریضہ حج کی ادائیگی کے بعد برصغیر کے نامور گلوکار محمد رفیع کی زندگی میں کیا انقلاب آیا تھا ؟ آپ بھی جانیے

What was the revolution in the life of Mohammad Rafi's renowned singer after the payment of Hajj? You also get

لاہور (ویب ڈیسک) تقریباً چار سال قبل فلمی دنیا میں قدم رکھنے والی مسلم اداکارہ زائرہ وسیم نے حال ہی میں فلم لائن چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے جو کچھ کہا اس کے بعد ایک بحث چھڑ گئی ہے۔ زائرہ نے لکھا تھا ‘یہ میرے خدا کو منظور نہیں اور فلموں میں کام کرنے سے بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ۔۔۔۔ میرے مذہب کے ساتھ میرا رشتہ خطرے میں پڑ گیا ہے’۔ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا جب کسی فنکار نے مذہب کی وجہ سے فلمی دنیا سے کنارہ کرنے کا فیصلہ کیا ہو۔ اس فہرست میں ونود کھنہ کا نام بھی لیا جاتا ہے۔ جس وقت ونود کھنہ نے سنیاس لیا تھا اس وقت وہ اپنے کریئر کی بلندیوں پر تھے۔ ونود کھنہ نے فلمیں چھوڑ کر اپنے سوامی اوشو کا مالی بننے کا فیصلہ کیا۔ ایسا ہی کچھ محمد رفیع کے ساتھ بھی ہوا تھا۔ ہر دلعزیز اور عظیم گلوکار محمد رفیع نے بھی اس وقت فلموں میں گانا بند کر دیا تھا جب وہ اپنے کریئر کی بلندیوں پر تھے۔ بعد میں انھیں احساس ہوا کہ فلموں میں گانا کوئی غلط بات نہیں ہے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب رفیع صاحب حج پر گئے تھے اور ان سے کہا گیا تھا کہ ’آپ حاجی ہوگئے ہیں اب آپ کو گانا بجانا بند کر دینا چاہیے۔‘ رفیع صاحب لوگوں کی باتوں میں آگئے اور گانا چھوڑ دیا جس سے فلمی دنیا میں ہنگامہ ہو گیا کیونکہ یہ وہ دور تھا جب رفیع صاحب انتہائی مقبول تھے اور لوگوں کے دلوں پر چھائے ہوئے تھے۔ بہت سے لوگوں کو یہ واقعہ اب یاد نہیں، کچھ لوگ اسے افواہ سمجھتے ہیں اور بے شمار لوگ اس سے واقف ہی نہیں ہیں یہاں تک کہ مشہور موسیقار کلیان جی آنند جی جن کے ساتھ رفیع صاحب کا طویل ساتھ رہا ہے، وہ بھی اس واقعے سے نا آشنا تھے کہ محمد رفیع نے مذہب کے لیے گانا چھوڑ دیا تھا۔ جب آنند جی سے اس بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ انھیں ایسا کوئی واقعہ یاد نہیں۔اس بارے میں جب میں نے رفیع صاحب کے بیٹے شاہد رفیع سے بات کی تو انھوں نے اس واقعے کو حقیقت بتاتے ہوئے اس کی تصدیق کی۔ ان کا کہنا تھا ’یہ حقیقت ہے کہ رفیع صاحب نے مذہب کی بنیاد پر فلموں میں گانا چھوڑ دیا تھا لیکن اللہ کا شکر ہے کہ کچھ ہی عرصے بعد انھوں نے اپنا فیصلہ تبدیل کر دیا اور سبھی نے سکھ کی سانس لی’۔ شاہد رفیع نے بتایا کہ ’1971 میں جب امی اور رفیع صاحب حج پر گئے تو وہاں سے واپس آنے کے بعد مولویوں کے کہنے پر انھوں گانا بند کر دیا تھا۔‘ شاہد کہتے ہیں کہ انھیں یاد نہیں کہ ان کے والد نے کتنے عرصے گانا نہیں گایا، ’اتنا یاد ہے کہ نوشاد صاحب کے ساتھ کچھ اور لوگوں نے انھیں سمجھایا اور میرے بڑے بھائیوں نے بھی سمجھایا۔ ان کا گانا بند کرنے سے گھر کا خرچ چلانا مشکل ہو جاتا۔‘ بھائیوں نے کہا کہ ’آپ کا گلا یا آواز ہی روزگار کا ذریعہ ہے، اب آپ کوئی ملازمت نہیں کر سکتے، اور نہ ہی کوئی کاروبار، اس لیے اللہ نے آپ کو جو نعمت عطا کی ہے وہی سب کچھ ہے۔ جس کے بعد انہوں نے پھر سے گانے کا فیصلہ کیا۔‘ اس سال رفیع صاحب کے انتقال کو چالیس سال ہو جائیں گے۔ انھوں نے اپنے کریئر کا آغاز 1944میں کیا تھا۔ وہ لاہور سے نوشاد صاحب کے ہی والد کا خط لے کر موسیقار نوشاد کے پاس ممبئی آئے تھے۔ 1948 میں نوشاد نے فلم میلہ کا ایک گانا رفیع صاحب کو دیا ‘یہ زندگی کے میلے’ جو سُپر ہٹ ہو گیا۔ اس کے بعد رفیع نوشاد ہی نہیں کئی موسیقاروں کے فیورِٹ بن گئے۔ لیکن نوشاد کے ساتھ انہوں جو کلاسیکی نغمے گائے ان کی کوئی مثال آج بھی نہیں ملتی۔ اس کے بعد ‘مدھوبن میں رادھیکا ناچے رے’، ‘کوئی ساغر دل کو بہلاتا نہیں‘ اور ‘آج کی رات میرے دل کی سلامی لے لے’، ان ڈیڑھ سو نغموں میں شامل ہیں جو انھوں نے نوشاد کے لیے گائِے تھے۔ فلم ’بیجو باورا‘ کے گانوں نے انھیں نئی بلندیوں پر پہنچایا تھا۔ 1977 کے بعد رفیع صاحب نے بے شمار ہٹ گانے دیے جس میں فلم ’ہم کسی سے کم نہیں‘ کا گانا ’کیا ہوا تیرا وعدہ‘ کے لیے انھیں عظیم پلے بیک سنگر کا ایوارڈ دیا گیا اور ساتھ ہی چھٹی بار فلم فیئر ایوارڈ بھی ملا۔ اس کے بعد انھوں نے فلم یادوں کی بارات، ابھیمان، بیراگ، لوفر، دوستانہ، امر اکبر اینتھونی جیسی مشہور فلموں میں یادگار گانے گائے۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website