counter easy hit

رنگ گورا کرنے والی کریم کس حد تک خطرناک ثابت ہو سکتی ہے؟

کراچی (ویب ڈیسک) برطانوی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ رنگ گورا کرنے کی کریم میں ایسے اجزا شامل ہیں جو آگ کو اپنی جانب کھینچ لیتے ہیں اور اسی باعث خواتین کی اموات میں اضافہ بھی ہوا۔برطانوی تحقیقاتی ادارے برائے ادویات اور ہیلتھ کیئر نے رنگ گورا کرنے والی کریم سے ہونے والی ہلاکتوں کے اعداد و شمار جاری کیے ، فائربریگیڈاور فلاحی رضاکاروں کی مدد سے اعداد و شمار جمع کیے گئے جس میں یہ بات سامنے آئی کہ ماہرین کے مطابق رنگ گورا کرنے کی کریم میں ایسے اجزا شامل کیے جاتے ہیں جو آگ کو بڑھاوا دینے اور اپنی جانب کھینچنے میں مدد کرتے ہیں۔ ماہرین نے کہا کہ واشنگ پاڈر(سرف) میں بھی ایسے اجزا شامل ہوتے ہیں جو آگ کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ دوسری جانب خبردار ، ہوشیار رنگ گورا بنانے کے چکروں میں کہیں نقصان نہ کر بیٹھیں ، جی ہاں رنگ گورا کرنے والی بیشتر کریموں میں شامل کیا جانے والا پارہ انسانی صحت کیلئے خطرہ بن گیا ۔ حکومت اس حوالے سے لاعلم ہے جبکہ مفاد پرستوں کی چاندی ہو رہی ہے ۔ مقررہ حد سے زیادہ پارہ ملی کریم کی فروخت پشاور سمیت ملک بھر میں عروج پر ہے ۔ گورا رنگ اور سوہنا مکھڑا ہر خاتون کی چاہت ہوتی ہے لیکن یہ خواہش خطرناک بھی ہوسکتی ہے ۔ رنگ گورا کرنے والی کریمیں انسانی جلد کیلئے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتی ہیں کیونکہ ان میں سے بیشتر میں پارہ استعمال کیا جاتا ہےس کی زائد مقدار مختلف جلدی بیماریوں کا سبب بن رہی ہے ۔ محکمہ ماحولیات کی جانب سے رنگ گورا کرنے والی مختلف کریموں کا تجزیہ کیا گیا ۔ تجزیئے میں انکشاف ہوا کہ ان کریموں میں مرکری یعنی پارے کا استعمال مقررہ حد سے چار سو گنا زیادہ ہے ۔ بین الاقوامی مارکیٹ میں ایسی کریموں پر مکمل پابندی ہے لیکن وطن عزیز میں یہ کریم کھلے عام فروخت کی جا رہی ہیں ۔ ان کریموں کے استعمال کرنے والے کے خون ، بال اور ناخنوں کے نمونوں کے تجزیئے میں بھی مرکری کے مضر اثرات پائے گئے ۔ رنگ گورا کرنے والی مختلف کریمیں اب مردوں میں بھی مشہور ہیں جن کے استعمال کے باعث الرجی ، انفیکشن ، چہرے کی جھریاں اور رعشہ جیسے امراض لاحق ہو رہے ہیں ۔ ماہرین کے مطابق چہرے کو صاف اور رنگ گورا بنانے والی کریموں کی جانچ کیلئے کمیٹیوں کی تشکیل اور مناسب قانون سازی ضروری ہے ۔