counter easy hit

جاویدچوہدری کے سوال پر انکے مرشد نے کیا مشورہ دیا ؟ بڑے کام کی تحریر

What advice did his mentor give on Javed Chaudhry's question? Great job writing

لاہور (ویب ڈیسک) میں نے ایک دن مرشد سے پوچھا ’’استاد خوش قسمتی اور بدقسمتی آخر ہوتی کیا ہے؟‘‘ وہ ہنس کر بولے ’’ خوش قسمتی اور بدقسمتی میں لکڑی اور لوہے جیسا فرق ہوتا ہے ‘ لکڑی پانی میں تیرتی ہے جب کہ لوہا فوراً ڈوب جاتا ہے۔خوش قسمت انسان لکڑی کی طرح مصائب‘ نامور کالم نگار جاوید چوہدری اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔مسائل اور پریشانیوں میں تیرتا رہتا ہے‘مسائل اور پریشانیاں اس کے اردگرد‘ اس کے دائیں بائیں ‘ اوپر نیچے بہتی رہتی ہیں لیکن یہ اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں‘ یہ ان کی گہرائیوں میں نہیں ڈوبتا جب کہ بدقسمت شخص لوہے کی کیل کی طرح چند لمحوں میں مسئلوں کے پانی میں ڈوب جاتا ہے۔ بدقسمت شخص کے بارے میں عربی کی بڑی شاندار کہاوت ہے‘ عرب کہتے ہیں انسان پر جب بدقسمتی کے سائے آتے ہیں تو یہ اونٹ پر بھی بیٹھا ہو تو اسے کتا کاٹ لیتا ہے۔اسی طرح ہندی میں بدقسمت شخص کے بارے میں کہا جاتا ہے یہ سونے کو بھی ہاتھ لگائے تو وہ مٹی ہو جاتا ہے۔ یہ دونوں محاورے درست ہیں کیونکہ بدقسمتی کے دور میں ہر خوشی‘ ہر کامیابی اور ہر اچھائی الٹ ہو جاتی ہے‘ بدقسمت شخص کا چاند جوہڑ سے طلوع ہوتا ہے اور اس کے گلابوں سے گوبر کی بو آتی ہے‘ یہ بے چارہ حدیث بھی سنائے تو لوگ منہ پھیر لیتے ہیں۔ اس کا اپنا سایہ بھی اس کا ساتھ چھوڑ دیتا ہے اور یہ مسائل اور پریشانیوں کے لق و دق صحرا میں خشک ٹہنی کی طرح تنہا کھڑا ہوتا ہے‘ اس کے اوپر اور نیچے دونوں طرف آگ دہک رہی ہوتی ہے اور اس لمحے یہ دائیں بائیں‘ اوپر نیچے دیکھ کر قدرت سے صرف ایک سوال کرتا ہے ’’یا پروردگار میں کیا کروں؟‘‘ یہ دنیا کا قیمتی ترین سوال ہے اور ہم میں سے ہر انسان زندگی میں کبھی نہ کبھی اس نقطے پر ضرور آتا ہے۔ یہ سوال بعض لوگوں کی زندگی میں بجلی کے شعلے کی طرح آتا ہے اور چلا جاتا ہے اور بعض کی زندگی میں یہ سوال سکینڈے نیوین ملکوں کی راتوں کی طرح طویل ہو جاتا ہے اور انسان کی سانسیں امید اور نا امیدی کی منڈیر سے لٹکی رہ جاتی ہیں‘‘۔میں نے پوچھا ’’ بدقسمتی کے اس لمحے انسان کیا کرے؟‘‘۔ وہ بولے ’’ہمیں اس سوال کے جواب سے پہلے قدرت کے نظام کو سمجھنا ہوگا ‘قدرت کے نظام میں ہر چیز دوسری چیز سے توانائی حاصل کر تی ہے‘ جانداروں کے زندہ رہنے کے لیے آکسیجن اور پانی ضروری ہوتا ہے‘ پانی اور آکسیجن کے لیے سورج کی روشنی ضروری ہے‘ سورج کی روشنی پیدا کرنے کے لیے جلنے والی گیسیں چاہییں اور گیسوں کی پیدائش کے لیے کسی ان دیکھی کہکشاں کے کیمیائی ری ایکشن ضروری ہوتے ہیں‘ اسی طرح پودوں کو جانور کھاتے ہیں‘ جانوروں کو انسان کھاتا ہے۔ انسان کا جسد خاکی کیڑے مکوڑے کھا جاتے ہیں اور کیڑے مکوڑوں کی باقیات پودے چٹ کر جاتے ہیں غرض کائنات کی تمام اکائیاں ایک دوسرے کی محتاج ہیں‘ ہمارا مقدر بھی کسی نہ کسی دوسرے شخص سے جڑا ہوتا ہے ‘ ہماری خوش قسمتی اور بدقسمتی دونوںدوسرے لوگوں سے وابستہ ہوتی ہیں چناںچہ انسان جب بھی بدقسمتی کے گرداب میں پھنسے تو اسے چاہیے یہ کسی دوسرے خوش قسمت شخص کا سہارا لے لے بالکل لوہے کی اس کیل کی طرح جو ڈوبنے سے بچنے کے لیے لکڑی کے تختے میں پیوست ہو جاتی ہے۔ بدقسمت انسان کیل کی طرح لکڑی کے تختے کا حصہ بن کر مسائل کے سمندر میں تیر سکتا ہے‘ ہم سب کو بدقسمتی کے دور میں تین حقیقتیں ذہن میں رکھنی چاہئیں۔ ایک‘ دنیا میںکوئی چیز‘ کوئی صورت حال اور کوئی حالت مستقل نہیں ہوتی‘ دنیا کی ہر چیز میں تبدیلی آتی ہے‘ رات خواہ کتنی ہی لمبی اور دن خواہ کتنا ہی چمکدار کیوں نہ ہو یہ دونوںبالآخر ختم ہو جاتے ہیںاور بدبو خواہ کتنی ہی ناقابل برداشت کیوں نہ ہو‘ یہ ہوا میں تحلیل ہو جاتی ہے۔ خوش قسمتی کی طرح بدقسمتی بھی عارضی ہوتی ہے اور یہ بالآخر ختم ہو جاتی ہے لیکن سوال یہ ہے اس کا دورانیہ کتنا لمبا ہو سکتا ہے؟۔ہندی نجومیوں کے مطابق بدقسمتی کا دورانیہ عموماً اڑھائی سال سے ساڑھے سات سال تک ہوتا ہے اور بدقسمتی کے نوے فیصد کیسوں میں ساڑھے سات سال بعد صورت حال تبدیل ہو جاتی ہے جب کہ یورپین ماہرین انسان کی زندگی کواٹھائیس‘ اٹھائیس برسوں کے تین ادوار میں تقسیم کرتے ہیں ‘ ان کے مطابق دنیا کے ہر انسان (اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو) کی زندگی میں اٹھائیس سال بعد نمایاں تبدیلی آ جاتی ہے‘ یہ تبدیلی بعض اوقات اگلی نسل میں جا ظاہر ہوتی ہے۔ ہم اکثر دیکھتے ہیں ایک نسل کسمپرسی میں زندگی گزارتی ہے اور اگلی نسل کی شروعات ہی خوش حالی اور کام یابی سے ہوتی ہے۔ اگلی نسل اسے اپنی کام یابی سمجھتی ہے جب کہ یہ حقیقت میں پچھلی نسل کی بدقسمتی کا ’’ریوارڈ‘‘ ہوتا ہے چناںچہ انسان کو چاہیے یہ اس عارضی بدقسمتی کو عارضی ہی سمجھے۔ دو‘ انسان کو چاہیے یہ لوہے کی کیل کی طرح کسی لکڑی کا سہارا لے لے‘ یہ خوش قسمت لوگ تلاش کرے‘ اپنا زیادہ تر وقت ان کی صحبت میں گزارے‘ ان کے ساتھ پارٹنر شپ کر لے یا پھر ان کی ملازمت اختیار کر لے اور یہ سوچ لے حالات خواہ کتنے ہی گھمبیر اور خوف ناک کیوں نہ ہو جائیں میں نے اس شخص کا ساتھ نہیں چھوڑنا‘ یہ شخص خواہ مجھے روز دھکے دے کر نکال دے لیکن میں اگلے دن دوبارہ اس کے پاس پہنچ جاؤں گا۔ یہ تکنیک مشکل ہے کیونکہ بدقسمتی کے دور میں انسان کی تذلیل معمول ہوتی ہے لیکن انسان اگر صبر کر لے اور اس سلوک کو چند برسوں کے لیے اپنا مقدر مان لے تو اس کی زندگی میں سکون کے لمحے آ سکتے ہیں اور تین‘ خوش قسمتی اور بدقسمتی دونوں صورتیں اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ ہوتی ہیں چناںچہ انسان کو کثرت سے اللہ سے رجوع کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہیے‘ اس سے مہربانی کی درخواست کرنی چاہیے اور اللہ کے ساتھ پارٹنر شپ کر لینی چاہیے۔ یہ انسان کی دس ہزار سالہ تحریری تاریخ کا فیصلہ ہے۔ چیرٹی کے منصوبے پھلتے پھولتے بھی ہیں اور ان سے انسان کو سکون بھی ملتا ہے لہٰذا انسان کو اگرکاروبار میں نقصان ہو رہا ہو تو یہ اللہ تعالیٰ کو کاروبار میں شریک کر لے‘ اپنی آمدنی سے چیرٹی کے لیے رقم نکالنا شروع کر دے‘ اللہ تعالیٰ کرم کردیتا ہے۔ اسی طرح مقدر کا خواتین کے ساتھ بھی بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے‘ ہمارے گھروں میں ہماری کوئی نہ کوئی بہن‘ کوئی نہ کوئی بیٹی خوش قسمت ہوتی ہے۔ خوش قسمتی کے آثار ان کی پیدائش کے ساتھ ہی ظاہر ہو جاتے ہیں۔ ہم لوگ اپنی بدقسمتی کے دور میں اس بیٹی‘ اس بہن پر شفقت کریں‘ اس سے اپنی قربت بڑھا لیں تو بھی ہماری بدقسمتی کی شدت میں کمی آ سکتی ہے۔ میں نے زندگی میں بے شمار لوگوں کو خوش قسمت لوگوں کی پارٹنر شپ‘ چیرٹی کے کاموں میں حصہ لینے‘ اللہ تعالیٰ سے توبہ کرنے ‘ اپنے گھر کی خواتین سے شفقت برتنے اور صبر اور شکر کو اپنی زندگی کا حصہ بناکر بدقسمتی کے دور سے نکلتے دیکھا۔ میں نے ایسے لوگ بھی دیکھے جو ساری زندگی بدقسمتی کے گرداب میں چکر کھاتے رہے لیکن ان کی اگلی نسل کو اللہ تعالیٰ نے مٹی کو سونا بنانے کا فن دے دیا اور لوگ اس خوش قسمت نسل کو دیکھ دیکھ کر حیران ہوتے رہے اور میں نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہیںجو پوری زندگی سونے کے چمچ سے کھاتے رہے لیکن ان کی اگلی نسل کو مٹی کا پیالہ بھی نصیب نہیں ہوا۔ یہ کیا ہے ؟یہ سب مقدر کا ہیر پھیر ہے‘ دنیا میں بنیادی طور پر ایک انسان کی بدقسمتی دوسرے انسان کی خوش بختی ہوتی ہے۔ مقدر گیند کی طرح ہوتا ہے ‘ جس طرح گیند ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ منتقل ہوتی رہتی ہے بالکل اسی طرح مقدر بھی ہاتھ اور جھولیاں بدلتا رہتا ہے چناںچہ آپ اگر ٹیم کا حصہ ہیں تو قسمت کی گیند کبھی نہ کبھی واپس آپ کے پاس ضرور آئے گی اور اگر نہیں آئے گی تو بھی آپ ’’لوزر‘‘ نہیں ہونگے کیونکہ آپ بہرحال اس خوش قسمت ٹیم کا حصہ رہیں گے۔جس کے کسی ممبر کے پاس خوش نصیبی کی گیند موجود ہے اوریہ ساتھی آپ کی اگلی نسل کو یہ گیند ضرور دے گاچناںچہ ٹیم کو نہ چھوڑیں‘ صبر کریں اور انتظار کریں‘ مقدر کا پیالہ کبھی نہ کبھی گردش کرتا ہوا آپ کے ہاتھ تک ضرور آئے گا۔ آپ اس وقت موجود نہ ہوئے تو آپ کے بیٹے یا آپ کے کسی عزیز کا ہاتھ اس تک ضرور پہنچے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نظام میں راتیں طویل ہو سکتی ہیں لیکن حتمی نہیں‘ یہ وقت پھیرتا رہتا ہے‘‘ وہ خاموش ہو گئے۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website