counter easy hit

ٹرین کی آمد پر سمٹتا اور روانگی پرلگتا……ایک انوکھا بازار

Watching the train's

Watching the train’s

کراچی…….. بنکاک ایک ایسا ملک ہے جو کئی حوالوں سے دنیا بھر میں مقبول ہے ،اس میںتیرتی کشتیوں پر لگے بازار ،دنیا میں تو مقبول ہیں لیکن سیاحوں کی توجہ کا مرکز آج کل ایسا ایک بازار ہے جوریل کی پٹری کے دونوں جانب ایک تنگ سی جگہ پرواقع ہے، یہ بازار ٹرین کی آمد سے چند لمحے قبل سمٹ جاتا ہے اور صرف ریلوے ٹریک بن جاتا ہے۔ جیسے ہی ٹرین وہاں سے گزرتی ہے تو فوراً بازار دوبارہ سج جاتا ہے۔ بظاہر یہ چند منٹ کا عمل ہے جو ٹرین آنے اور جانے پر دن میں سات بار دہرایا جاتا ہے۔ دنیا بھر سے آئے لاکھوں سیاحوں کےلئے یہ منظر ایک کشش رکھتا ہے جن کی وہ فلم بندی اور عکاسی کرتے ہیں۔یہ انوکھا بازارچھتری کھینچنے والے بازار کے نام سےمنسوب ہے،جوبنکاک کے جنوب مغرب میں سمت سونگ خرام نامی صوبے کے علاقےمیک لونگ میںواقع ہے ، یہ بازارریلوے لا ئن کے ساتھ دو قطاروں میںکئی کلومیٹر طویل ہے ، ریل لائن پر یہ پتھارہ بازار ایک بڑی گنجان مارکیٹ کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔
بنکاک کی سیر کے لیے آنے والے افراد،ریلوے ٹریک پر قائم میکلونگ کی اس ریلوے مارکیٹ کے دل چسپ مناظر سے خوب لطف اندوز ہوتے ہیں۔یہ سیاح لاکھوں کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے خاص طور پر،صرف انہی مناظر کو اپنی مووی کیمروں میںمحفوظ کرنے کے لیے آتے ہیں۔دن کے تقریباً گیارہ بجے،یہاںاشیائے صرف کی خریدوفروخت عروج پر ہوتی ہےکہ اچانک گھنٹی بجاکر ٹرین کی آمد کا اعلان کیا جاتا ہے۔ یہ آواز سنتے ہی بازار میں افراتفری کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ پٹری کی دونوں جانب کے دکان دار ، اپنے اسٹالوں کو چھوڑ کر ان پر معلق سائبان کا ڈنڈا مضبوطی سے تھام کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور گاہک بھی بازار کا درمیانی حصہ خالی کر کے دُکان کے کناروں سے چپک کر کھڑے ہوجاتے ہیںکہ کہیں ٹرین سے ٹکرانے کے نتیجے میں کوئی حادثہ رونما نہ ہوجائے۔سیاح بھی اپنے مووی اور اسٹل کیمرے آن کر کے ان مناظر کوفوکس کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ چند منٹ کے اندرلوگوں سے بھرا بازار ، ریلوے ٹریک میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ لوہے کا دیو ہیکل انجن دھواں اگلتا ، سیٹی بجاتا ہو ا ایک درجن بوگیوں پر مشتمل ریل گاڑی کو سست رفتاری سے کھینچتا ہوا قریب سے گزرجاتا ہے۔جس کے بعد دکان داراسٹالوں پر بیٹھتے ہیں اور خرید و فروخت کا کاروبارایک بار پھر شروع ہوجاتا ہے۔دنیا بھرمیں ریلوے ٹریک، آبادی سے سیکڑوں فٹ دور بچھائےجاتے ہیں۔ریلوے انتظامیہ کی طرف سے انہیں سیر و تفریح کےلیے ممنوعہ علاقہ قرار دیا جاتا ہے۔ریلوے لائن عبور کرنے کے لیےلوہے کے اوور ہیڈ پل بنائے جاتے ہیں تاکہ کسی بھی اچانک حادثے سے بچا جاسکے۔مگر یہاں کا منظر ہی کچھ نرالا ہے،یہاں موجود لوگ، گزرتی ہوئی ٹرین سے صرف دو فٹ دور کھڑے ہوکر ٹرین کے دیو ہیکل انجن اور طویل بوگیوں کے گزرنے کا منظر دیکھتے ہیں۔یہاں خریداروں اورسیاحوں کی تعداد روزانہ لاکھوں میں ہوتی ہے،یہ میٹر گیج ریلوے لائن ہے جو بنکاک، وانگ ویان یائی اور سمت سونگ خرام کو ملاتی ہے، درمیان میں اٹھار ہ اسٹیشن آتے ہیں۔ ان اسٹیشنوں کے درمیان 17ٹرینیں دوڑتی ہیں، جن میں سے آنے جانے والی سات ٹرینیں ، اس جگہ سے گزرتی ہیں۔
ریلوے ٹریک پر قائم بازار کی ابتدا 1905 میں کھانے پینے کے اسٹال سے ہوئی تھی۔ یہاں ٹرین سروس شروع ہونے کے بعد لوگ سمت سونگ خرام اور سمت سخون کی فش ہاربر کی طرف جاتے تھے۔ اس قصبے کی خوب صورتی اور گردونواح کےدل فریب مناظر کی وجہ سے وہ یہاں چند گھنٹے ٹھہرتے اور اس علاقے کی سیر کرتےتھے ۔ کچھ عرصے بعد اس علاقے سے بنکاک کی جانب جانے والی مسافر ٹرینوں کے علاوہ مال گاڑیاں بھی گزرنے لگیں جودریائے میکلونگ کے ساتھ واقع کھیتوں اور باغات سے پھل، سبزی، جڑی بوٹیاں اور دریا اور سمندر سے مچھلی اور جھینگوں کی کھیپ لے کر جایا کرتی تھیں۔دکان دار ، میکلونگ ریلوے اسٹیشن پر پھلوں اور سبزیوں کے ٹوکروں اور مچھلی و جھینگے کے ٹوکروںکا سودا کرلیتے تھے اور انہیں اشیائے خورونوش کے اسٹالوں پر رکھ کر فروخت کرتے تھے۔ چند سالوں بعد یہاں دکانوں میں اضافہ ہوتا گیا اورریلوےٹریک کے دونوں جانب کئی کلومیٹر طویل بازار وجود میں آگیا۔اس لائن پر کوئی سگنل نہیں ہے لیکن اس کے باوجود اس ٹریک پرگزشتہ 110سالوں کے دوران کوئی سنگین حادثہ رونما نہیں ہوا۔ لیکن سیاحوں اور خریداروں کے ہجوم کی وجہ سے ہر ٹرین کی آمد کے ساتھ حادثات کا خطرہ رہتا ہے۔ انہی خدشات کی بنا پر مقامی انتظامیہ نے ریلوے ٹریک پر واقع اس بازار کو ہٹانے کی کئی مرتبہ کوشش کی، لیکن اس منفرد بازار کا وجود مٹا نہ سکی۔