counter easy hit

یوز اینڈ تھرو : تماشہ مستقل جاری ہے!

Garbage

Garbage

تحریر : محمد آصف اقبال
ایک زمانہ تھا جب چیزیں پائیدار ہوتی تھیں، نمائشی اور وقتی استعمال کا تصور عام نہ تھا، شاید یہی وجہ تھی کہ اُس زمانہ کے افراد جو کچھ بھی کرتے ، اس میں بھی کہیں نہ کہیں پائیداری کا احساس ہوتاتھا۔یہ پائیداری استعمال میں آنے والی چیزوں ہی تک محدود نہ تھی بلکہ افکار و نظریات اورعملی ریوں میں بھی نظر آتی تھی۔مادیت اور کنزیومرزم نے یوز اینڈ تھرو کے نظریہ کو فروغ دیااور سرمایہ دار انہ نظام جب اِس نظریہ سے منسلک ہوا تو ایک نئی تہذیب وجود میں آئی۔اس کے باوجودپارتھا پراتم چکربرتی( Partha Pratim Chackraborti)جو آئی آئی ٹی کھرگپور کے ڈائیریکڑ ہیں ، کہتے ہیں کہ یوز اینڈ تھرو کلچر ہم ہندوستانیوں کا نہیں بلکہ مغرب کا ہے، ہمارا تصور ہے کہ چیزوں کی مرمت کی جائے اور انہیں استعمال کے لائق بنایا جائے۔چکربرتی صاحب کے جملے میں ایک پورے نظام کی منظر کشی ہوجاتی ہے،جہاں خاندان،معاشرہ، معاشرت، تمدن، سیاست اور وسائل زندگی سب شامل ہیں لیکن چونکہ یوز اینڈ تھرو کلچرمغرب کے علاوہ دیگرممالک میں اور ان ممالک میں بھی جو خود کو مخصوص فکر و نظراور تمدن کا حامل قرار دیتے ہیں ،زندگی کے مختلف شعبہ حیات میںبہت تیزی کے ساتھ اختیار کی جارہی ہے۔لہذا اس کے نتائج بھی ہمیں آئے دن خاندانی،معاشرتی،تمدنی اور سیاسی معاملات میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ایک ایسا ہی ڈرامہ حالیہ دنوں بہار کی سیاسی بساط پر سامنے آیا ۔جس میں جیتن رام مانجھی، نتیش کمار اور بی جے پی،تین بڑے کردار شامل تھے۔

1980کی دہائی میں سیاست سے وابستہ ہونے والے جیتن رام مانچھی پہلی مرتبہ کانگریس پارٹی کے ٹکٹ پر فتح پور،گیاڈسٹرکٹ سے اسمبلی میں کامیاب ہوئے اورچندر شیکھر سنگھ کی گورمنٹ میں ریاستی وزیر رہے۔1985میں دوسری مرتبہ کامیابی حاصل کی۔1980اور1990کے درمیان وزیر مملکت برائے ریاست بہار کی ذمہ داری انجام دی۔1990کی ناکامی کے بعد جنتا دل سے وابستہ ہوگئے۔1996میں جنتا دل تقسیم کے بعد،لالو پرساد یادو کی سربراہی میں نئی سیاسی پارٹی راشڑیہ جنتا دل کے ٹکٹ پر بہرائچ سے کامیاب ہوئے۔2005میں بی جے پی اور جنتا دل یونائیٹڈ کے اشتراک کے نتیجہ میں آر جے ڈی کو ریاست میں حکومت سے ہاتھ دھونا پڑا۔ساتھ ہی جیتن رام مانجھی بھی آر جے ڈی کو چھوڑ کر جے ڈی یو(جنتا دل یونائیٹڈ) میں شامل ہو گئے نیز آر جے ڈی کی سمتا دیوی کو ہرا کر جے ڈی یو سے کامیابی حاصل کی۔1990میں بی ایڈ ڈگری گھوٹالے (Fake B.Ed. Degree raket)میں جیتن رام مانجھی کا نام سامنے آیا ۔2008میں نتیش کمار کی حکومت میں گھوٹالہ سے وہ بری ہو گئے۔20مئی 2014بہار کے23ویں وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے اور گزشتہ چند ماہ سے بی جے پی میں دلچسپی اور نتیش کمار سے دوری کے بعد 20فروری2015وزیر اعلیٰ سے استعفیٰ دیناپڑا۔6اکتوبر1944میں پیدا ہونے والے مشرقی بہار کے جیتن رام مانجھی کا تعلق مساہر کمیونٹی سے ہے۔بہار واطراف میں لگ بھگ 2.3ملین مساہر بستے ہیں، جن کی حالت انتہائی خستہ حال ہے ۔ان میں سے صرف5فیصد سے بھی کم افراد تعلیم یافتہ ہیں بقیہ مزدور پیشہ ہیں۔ چھوت چھات کے خلاف قانون سازی کے باوجود آج بھی مساہر کمیونٹی کے ساتھ ذلت آمیز سلوک روارکھاجاتا ہے۔ ذلت آمیز سلوک کا تذکرہ بحیثیت وزیر اعلیٰ خود مانجھی نے ایک تقریب کے موقع پر کیا تھا۔انہوں نے کہا تھا کہ ضلع مدھوبنی میں پوجا کی رسومات کے لئے مجھے مدعو کیا گیا،بعض افراد نے خصوصی طور پر اس بات کی دعوت دی کہ میں تقریب کے موقع پر مندر میں مذہبی رسومات میں شریک ہوں ۔لیکن بعد میں بعض اعلیٰ قائدین نے مجھے بتایا کہ میرے واپس ہونے کے بعد پجاریوں نے مندر میں موجود دیوی ،دیوتاؤں کے بتو ں کو دھویا،کیونکہ میرا تعلق ایک نچلی ذات سے ہے مانجھی کے اس درد بھرے واقعہ میں ملک کی مذہبی و تمدنی صورتحال کو بھی باخوبی سمجھا جا سکتا ہے،جہاں طبقاتی کشمکش بڑے پیمانہ پر موجود ہے۔لیکن اگر جیتن رام مانجھی کی نجی زندگی اور سیاسی اتارچڑھائوپر ایک سرسری نگاہ ڈالی جائے تو یہاں خود ان کی زندگی میںبھی “یو ز اینڈ تھرو” باالفاظ دیگر ذاتی مفاد کے پیش نظر سیاسی وابستگیاں اور پھر فائدہ اٹھاکر مخصوص افراد و گروہ سے دوریاں پیدا کرنا،سامنے آتا ہے۔

اس کے باوجود دلت برادری کے مخصوص لیڈران میں ایک اور نام جیتن رام مانجھی کا جڑ گیا ہے۔پٹنہ کی سڑکوں پر لوگوں نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ رام ولاس پاسوان تو ایک کمیونٹی کے رہنما ہیں، لیکن مانجھی تمام دلتوں کے لیڈر بن گئے ہیں۔اب بی جے پی اس بدلتی صورتحال سے لازماًفائدہ اٹھانا چاہے گی۔دوسری طرف بہوجن سماج پارٹی کی صدر مایا وتی نے بی جے پی اور مرکز کی نریندر مودی حکومت پر اقتدار کے لیے بہار میں سیاسی انتشارپیدا کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ مرکزی حکومت کے ایسے ہتھکنڈوں سے پورے ملک کا ماحول خراب ہو رہا ہے۔مودی حکومت ایک مہا دلت کے نام پر سیاست کر رہی ہے۔اور اگر اُنہیں مظلوم سماج کی ذرا بھی فکر ہوتی تو وہ مرکزی حکومت کے مختلف سکریٹرئٹ، شعبہ جات اور مرکزی دفاتر میں ریزئوڈ اورخالی شدہ ملازمتوں کو بھرنے کی کوشش کرتے۔جبکہ معاملہ یہ ہے کہ اس تعلق سے کوئی مٹنگ یا اعلان تک نہیں کیا گیا ہے۔

ہندوستانی سماج بے شمار طبقات اور ذاتوں پر مشتمل سماج ہے۔ ان مختلف طبقات میں مساہر کون ہیں؟آئیے ایک سرسری نظر ان پر بھی ڈالتے چلیں۔موسا (چوہا) اور آہار(کھانا)کو ملانے سے مساہر کہلائے جاتے ہیں یعنی وہ گروہ ،افراد اور کمونٹی جو چوہے کھانے والی ہے۔یہ ایک ایسی پہچان ہے، جس سے وہ چھٹکارا پانا چاہتے ہیں، لیکن ان میں چوہے کھانا کا چلن آج بھی موجود ہے۔بہار میں تقریباً 30لاکھ مساہر ہیں،جوپوری ریاست میں بستے ہیں۔اس کے باوجود گیا ضلع میں ان کی آبادی سب سے زیادہ ہے۔ان کا رہن سہن بالکل ایسا ہی ہے جیسے طبیلے میں جانور رہتے ہوں،یعنی وسائل کے لحاظ سے حد درجہ پرشان حال زندگی۔عموماً یہ لوگ سوروں کے باڑے اور گائے کے بتھان کے قریب رہتے ہیں۔اس وجہ سے ان کے بچوں میں مختلف بیماریاں پیدا ہوجانا ایک عام بات ہے۔گزشتہ دنوں گیا کے ایک اسپتال میں چند ہی دنوں میں مہاماری کے دوران کئی درجن بچوں کی موت ہو گئی۔دوسری طرف اسپتال کے ذمہ داران بتاتے ہیںکہ ایسے بے شمار بچے تھے جنہیں علاج تک میسر نہیں آیا اور وہ چل بسے ۔معلوم ہوا کہ مساہر کمیونٹی تعلیم و روزگار کے علاوہ صحت عامہ کے مسائل سے بھی بری طرح نبرد آزما ہے۔ریاستی حکومت نے جہاں ایک طرف ان کی خستہ حالی کو سامنے رکھتے ہوئے “مہا دلت “کے زمرے میں رکھاہے،اس کے باوجود اُن کے مسائل کے لیے کوئی ٹھوس اقدام و منصوبہ نہیں ہے۔بودھ گیا شہر جہاں مہاتما بدھ کو بقول شخصے”خدائی علم “حاصل ہوا تھا،

سیکڑوںسر منڈائے جاپانی اور یوروپین سیاح بیٹھ کر غیر ملکی لاپسنگ سوچونگ اور ببل چائے کا مزہ لیتے نظر آتے ہیں۔ وہیں 15منٹ کے فاصلہ پر ،پراریہ گائوں ہے ،جہاں300گھروں والی آبادی میں 1200افراد رہتے ہیں۔گائوں میں مٹی سے بنی جھونپڑیوں تک پہنچنے کے لیے پانی اور کیچڑ سے گزرنا ہوتاہے۔اورگائوں کے مہاسروں کو یادو و ٹھاکروں یا دیگر ذات کے لوگوں کے کھیتوں میں پورے دن کام کرنے کی صرف15روپے اجرت ملتی ہے ۔اور اگر وہ مرد نہیں عورت ہے، تو اسے بس تھوڑا سا اناج مل جاتا ہے،روپے نہیں ملتے۔یہ وہ ذلت آمیز اور جسم و روح کو حد درجہ تکلیف پہنچانے والی زندگی ہے،جو آزادملک کے 67سال مکمل ہونے کے باوجود،مسائل کا کوئی پختہ حل نہیں رکھتی۔شاید ان ہی جیسے معاملات پر ڈاکٹر گھُریے کا خیال ہے کہ انڈوآرین نسل کے آباء و اجداد عیسیٰ علیہ السلام کے پانچ ہزار سال قبل یورپ اور ایشیا کے مختلف حصوں میں پھیلے۔

جب وہ ہندوستان میں آئے تو انہوں نے قبائلی ذاتوں سے بنے شودر ورن سے شادی کرنے پر روک لگائی اور ان کو آریوں کے مذہبی اور سماجی اعمال اختیار کرنے سے محروم کر دیا۔اس طرح انہوں نے علیحدہ طبقات اور ذاتوں کی تخلیق کی(شمبھو رتن ترپاٹھی:بھارتیہ سنسکرتی اور سماج،ص١٤٦)۔حجری کتبات میں بھی اس بات کے ٹھوس ثبوت ملتے ہیں کہ ورن ویوستھا بنائے رکھنا راجا کی ذمہ داری تھی۔قدیم سمرتی مصنفین میں منو نے راجا کے ذریعہ ورن ویوستھا بنائے رکھنے پر پورا زور دیا ہے۔ان کے مطابق حکومت اسی وقت تک ترقی کر سکتی ہے جب تک ورنوں کی پاکیزگی بنی رہتی ہے(رام شرن شرما:پراچین بھارت میں راجنیتک وچارایوم سنستھائیں،ص٧٦)۔آج پھر ورن ویوستھا کے علمبردار نہ صرف برسر اقتدار ہیں بلکہ اپنے موقف پر مضبوطی سے جمے ہوئے بھی نظر آتے ہیں ۔وہیں دوسری طرف اسی ویوستھا سے وابستہ افراد کو یوز اینڈ تھرو کے فارمولہ پر استعمال کرنے کا کھیل بھی جاری ہے۔اس سب کے باوجود متذکرہ کمیونٹی سے وابستہ لیڈران جہاں ایک طرف اپنے مسائل کا رونا روتے ہیں وہیں اپنی ہی کمیونٹی کے لوگوں کے مسائل پر سیاسی بساط پرکھیلتے بھی نظر آتے ہیں۔سیاسی بساط پر وہ دوسروں کو زیر کرتے تو بہتر تھا برخلاف اس کے وہ خود ہر مرتبہ زیر ہورہے ہیں،اور یہ تماشا مستقل جاری ہے!

تحریر : محمد آصف اقبال
maiqbaldelhi@gmail.com
maiqbaldelhi.blogspot.com