counter easy hit

امریکہ نے تارکین وطن کے بچوں کی شہریت کی سہولت ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا، ڈاکا پروگرام پرنظر ثانی

اسلام آباد(ایس ایم حسنین) امریکی محکمه ہوم لینڈ سیکیورٹی نے اعلان کیا ہے کہ وہ بچپن میں امریکه آنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ملک بدری روکنے والے پروگرام کے تحت نئی درخواستیں وصول نہیں کرےگا۔ امریکی خبررساں ادارے کے مطابق ڈی اے سی اے (ڈاکا) نامی اس پروگرام کے تحت ایسے غیر قانونی تارکین وطن کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے ، جو بچپن میں امریکہ لائے گئے تھے۔ ہوم لینڈ سیکورٹی کے قائم مقام وزیر چاڈ وولف نے ایک سرکاری مراسلے میں لکھا ہے کہ وہ بچپن میں امریکہ لائے گئے افراد کے بارے میں زیر التوا ڈی اے سی اے (ڈاکا) پروگرام پر نظر ثانی شروع کر وا رہے ہیں۔ اور اس کے ساتھ اس دوران نئی درخواستوں کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ ان کی ایجنسی اس پروگرام میں شامل موجودہ افراد کو اس بات کی اجازت دے گی کہ وہ اپنے قیام اور ورک پرمٹ کی مدت میں ایک سال کی تجدید کروا سکتے ہیں۔ پہلے یہ توسیع دو سال کے لیے ہوا کرتی تھی۔ تیسری پابندی یہ لگائی گئی ہے کہ موجودہ شرکاء کو سفر اور امریکہ دوبارہ آنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ صرف خاص حالات میں اس کی اجازت دی جائے گی۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے ڈی اے سی اے (ڈاکا)پروگرام کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی تھی،مگر پچھلے ماہ سپریم کورٹ نے ایک حکم کے ذریعے یہ کہہ کر روک دیا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے مناسب طے شدہ ضابطوں کی پیروی نہیں کی۔ یہ پروگرام سن 2012 میں سابق صدر اوباما نے نافذ کیا تھا۔ اس وقت امریکہ میں تقریباً ساڑھے چھ لاکھ افرادڈی اے سی اے (ڈاکا) پروگرام سے مستفید ہو رہے ہیں۔ اس پروگرام میں شامل ہونے کے لیے یہ شرط رکھی گئی تھی کہ وہ سن 2007 کے وسط سے پہلے امریکہ آئے ہوں اور اس وقت ان کی عمر سولہ سال سے کم ہو ۔ اس کے بعد وہ 2012 کے وسط تک مسلسل امریکہ میں مقیم ہوں۔ اہلیت کے لیے یہ بھی لازم تھا کہ انہیں کسی جرم پر سزا نہ ہوئی ہو اور وہ قومی سلامتی کے لیے خطرہ نہ بنے ہوں۔ ان افراد کے لیے لازم تھا کہ ان کے پاس کسی سکول کا ڈپلومہ ہو یا انہوں کسی سکول میں داخلہ لے رکھا ہو یا پھر انہوں نے فوج میں ملازمت کی ہو۔ اوباما انتظامیہ کا موقف تھا کہ اس معیار پر پورا اترنے والوں کو قانونی امیگریشن کا حق ملنا چاہیے۔ کیوں کہ یہ لوگ بچپن میں امریکہ آئے تھے ، اس لیے یہ امریکہ کو ہی اپنا وطن سمجھتے ہیں اور یہ اپنی مرضی سے غیر قانونی طور پر امریکہ نہیں آئے تھے۔ قائم مقام وزیر وولف نے اپنے سرکاری مراسلے میں لکھا کہ کانگریس نے بھی اس مسئلے پر کچھ نہیں کیا ، جبکہ انہیں اس کے مستقل حل کے لیے معقول وقت میسر تھا۔ منگل کو ہی محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی کے ایک اعلیٰ اہل کار نے نیوز بریفینگ میں کہا کہ محکمہ نظر ثانی کے لیے مناسب وقت لے گا اور اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کارروائی کب تک مکمل ہو گی۔ ایوان کی انصاف کی کمیٹی کے چیرمین اور امیگریشن اور شہریت کی ذیلی کمیٹی کے سربراہ نے ایک مشترکہ بیان میں سینیٹ میں ری پبلکن پارٹی کے ارکان سے کہا ہے کہ وہ امیگریشن اصلاحات کےاس بل کے مسودے پر جلد از جلد کارروائی کریں جسے ایوان نمائیندگان کی اکثریت نے منظور کر رکھاہے ۔ دی نیشنل امیگریشن لا سینٹر نے کہا ہے کہ امیگریشن کے منتظر خاندانوں میں خوف و ہراس میں ایک ایسے وقت پھیلایا جا رہا ہے جب یہ کمیونٹی پہلے ہی کرونا وائرس کی وجہ سے متاثر ہے۔

پیر کو نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ ہم ڈی اے سی اے (ڈاکا) پروگرام پر کام کر رہے ہیں ، اس کے ساتھ امیگریشن بل پر بھی کام کر رہے ہیں۔ ہم اہلیت کی بنیاد پر ایک نظام لانا چاہتے ہیں۔ میری طویل عرصے سے ایسا کرنے کی خواہش تھی۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website