counter easy hit

سونامیوں کی واپسی

Imran Khan

Imran Khan

تحریر : پروفیسر رفعت مظہر
کیا یہ ہمارے کپتان صاحب کی ”عظمتوں”کا بیّن ثبوت نہیںکہ وہ محض ملک و قوم اور جمہوریت کی خاطر سات ماہ تین دِن بعدچوروں، ڈاکو ؤںاور جعلسازوں کی بوگس پارلیمنٹ میںطوہاََوکرہاََتشریف لے آئے ؟۔کچھ لوگ اسے ”ایک اوریو ٹرن ”بھی کہتے ہیں لیکن ہم تواسے جمہوریت کاحسن ہی سمجھتے ہیں ۔اوروںکا توذکر ہی کیا،یہاںتو یہ عالم ہے کہ ہمارے بھائی رؤف طاہرکو بھی کسی نے گمراہ کردیا اور اُنہوںنے بھی اپنے کالم میںتحریکِ انصاف کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میںآمد کو نہ صرف یوٹرن قراردیا بلکہ اِس حوالے سے ایک لطیفہ بھی نذرِقارئین کیا ۔لطیفہ تھا تومزیدار لیکن ہم اُسے پڑھ کرجَل بھُن کرکباب ہوگئے ۔رہی” یوٹرن”کی بات تواِس پربھی ہمیںبھائی رؤف طاہرسے شدید اختلاف ہے۔اِسی لیے ہم اپنااحتجاج ویسے ہی ریکارڈ کروارہے ہیںجیسے قائدِحزبِ اختلاف سیّدخورشیدشاہ نے پارلیمنٹ میںریکارڈ کرواتے ہوئے کہا”مسلم لیگ نون کواحتجاج کرناہے تواپنی حکومت کے خلاف کرے جوتحریکِ انصاف کوایوان میںلائی ہے

”۔ویسے یہ کتنی زیادتی کی بات ہے کہ نوازلیگ پہلے ”منتوں،ترلوں”سے تحریکِ انصاف کوپارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میںلائی اورپھرخودہی بذریعہ خواجہ آصف سیالکوٹی اُس کی ”دھنائی”بھی کردی۔پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میںتحریکِ انصاف کی موجودگی پرشورتو پہلے ہی بہت تھالیکن خواجہ آصف صاحب نے یہ کہہ کرجلتی پرتیل چھڑک دیاکہ ”کچھ شرم ہوتی ہے ،کچھ حیاہوتی ہے، اخلاقیات کوسمجھو ،خُداکا خوف کرو ،کنٹینرپر بیٹھ کرہمیں گالیاںدیتے رہے ہواور اسمبلی کوجعلی اوردھاندلی کی اسمبلی قراردیتے رہے ہو ،آج کھڑے ہوکر اِس بات کااقرار توکرو کہ آپ نے استعفے دیئے ہیں”۔خواجہ صاحب کی بات توسمجھ میںآتی ہے لیکن کیایہ عین حقیقت نہیںکہ تحریکِ انصاف کوبذریعہ جوڈیشل کمیشن پارلیمنٹ میںلانے والی بھی خودنوازلیگ ہی ہے ؟۔

اجلاس کے پہلے سیشن میںمولانافضل الرحمٰن نے بھی بہتی گنگامیں ہاتھ دھونے کی کوشش کی لیکن سپیکرصاحب نے اُنہیں ”ٹھَپ”دیا ۔مولانانے سوال کیاکہ یہ لوگ اسمبلی میںکِس آئینی حیثیت سے آئے ہیںتو جواباََ سپیکرصاحب نے کیاآئینی موشگافی کی کہ”مولانا! اگریہ اندربیٹھے ہیںتو ممبرہیں”۔ اُنہوںنے یہ بھی فرمایا” استعفے اپنی موت آپ مَرگئے” ۔تب سے اب تک ہم یہی سوچ رہے ہیںکہ اگرکوئی ستم ظریف سپیکرصاحب کی کرسی خالی دیکھ کراُس پر بیٹھ گیاتو ہمارے ایازصادق صاحب کاکیا بنے گا ۔پھرتو یہی کہاجائے گاکہ” چونکہ سپیکرصاحب کی کرسی خالی تھی اِس لیے اُس پرجو بیٹھا ،وہی سپیکر”۔ہمارے ایازصادق صاحب کوتو پہلے ہی تحریکِ انصاف نے ”وَخت”میں ڈالاہوا ہے اِس لیے بہتریہی ہے کہ وہ اپنی یہ ”آئینی رولنگ”واپس لے لیں،کہیں ایسانہ ہوکہ وہ ”سپیکری”سے بھی ہاتھ دھوبیٹھیں ۔پارلیمنٹ کے دوسرے سیشن میںمولاناکو جب موقع ملاتواُنہوںنے بھی ”کھڑاک” کردیا۔

مولانانے فرمایا”سپیکرصاحب نے آئین وقانون اورضابطوںسے بالاتر ہوکر ایسی رولنگ دے دی ہے جومتنازع ہو سکتی ہے ۔بحیثیت ممبراسمبلی ہمارے لیے احتساب کانظام نہیں ۔سپیکرکی توہین کی جائے،پارلیمنٹ پرحملہ کریں ،پارلیمنٹ کوگالیاں دیں، سپیکرکی ذات کوتسلیم نہ کریں ۔بھرے ایوان میںاِن سے پوچھاجائے کہ انہوںنے استعفیٰ دیاتھا کہ نہیں؟۔اگر ہاتھ سے استعفیٰ نکل جائے توپھر واپس نہیںہوتا”۔ سچی بات ہے کہ مولاناصاحب کے اِس بیان کے بعد مارے خوف کے ہمیںتو ”تریلیاں”آنے لگیں۔ ہمارے خوف کاسبب یہ تھاکہ اگرمولاناصاحب نے یہ فتویٰ جاری کردیا کہ جس طرح تین طلاقوںکے بعد ”حلالہ”ضروری ہوجاتاہے اُسی طرح استعفے کا”حلالہ”بھی ضروری ہے ، توپھر ہم سونامیوںکا کیابنے گا؟۔فی الحال توبات صرف آئین کی ہے شرعی نہیںاور آئین توموم کی وہ ناک ہے جسے ہم جب اورجیسے موڑناچاہیں ،موڑنے پرقادر ہیںلیکن اگربات شریعت تک جاپہنچی توپھر ہمارا”کَکھ”باقی نہیںبچے گا۔

ایم کیوایم کے محترم فاروق ستارایوان میںباربار آئین کی کتاب لہرالہرا کریہ شورمچاتے رہے کہ پارلیمنٹ میں ”اجنبی”گھس آئے ہیں۔وہ کہتے رہے ” اراکین کے استعفے منظورنہیں کیے جاتے اوریہ بھی نہیںبتلایا جاتاکہ آئین کے کس آرٹیکل کے تحت استعفے منظورنہیں کیے گئے ”۔ شایدبھولے فاروق ستارنہیں جانتے کہ استعفے آئین کے اُس سب سے ”پاورفُل آرٹیکل” کے تحت منظورنہیں کیے گئے جسے ”نظریۂ ضرورت”کہتے ہیںاور یہ توفاروق ستاربھی جانتے ہی ہوںگے کہ نظریۂ ضرورت آئین کاایسا آرٹیکل ہے جس کے آگے سپریم کورٹ بھی بے بس ہے کیونکہ یہ ”آرٹیکل”خود سپریم کورٹ کاہی پیداکردہ ہے اوراسے ہمیشہ بگڑے کام سنوارنے کے لیے استعمال کیاجا تاہے ۔یہ بجاکہ آئین کے آرٹیکل 64 کی شِق ایک کے مطابق سپیکرقومی اسمبلی کسی بھی رکنِ اسمبلی سے صرف یہ کنفرمیشن کرنے کامجاز ہے کہ استعفے پراس کے دستخط جعلی تونہیںاور اُس نے کسی دباؤ کے تحت استعفیٰ تونہیں دیا۔کسی بھی رکنِ اسمبلی کے استعفے کومنظوریا نامنظورکرنا سپیکرصاحب کاصوابدیدی اختیار ہرگزنہیں ۔آرٹیکل64 کی شق 2 کے مطابق جورُکنِ پارلیمنٹ کوئی معقول وجہ بتائے بغیر پارلیمنٹ کے اجلاس سے متواتر 40 دن تک غیرحاضر رہے تواُس کی رکنیت خودبخود ختم ہوجاتی ہے لیکن یہ سب آئینی باتیںہیں اور جس طرح ”ہاتھی کے پاؤںمیں سب کاپاؤں” اُسی طرح نظریۂ ضرورت کے پاؤںمیں ساراآئین۔

ایم کیوایم نے تحریکِ انصاف کی پارلیمنٹ میںآمد پرشور بھی بہت مچایااور اُنہیںاجنبی قراردے کرپہچاننے سے بھی انکارکردیا جسے دیکھ کرہمیں یوںمحسوس ہواکہ جیسے ساری ایم کیوایم مرضِ نسیاں میں مبتلاء ہوگئی ہے اوراسے اتنابھی یادنہیںرہا کہ یہ وہی تحریکِ انصاف ہے جس کے ”دھرناکھڑاک”میںشمولیت پروہ ”اندرواندری” راضی بھی ہوگئی تھی لیکن پھر”نامعلوم”وجوہات کی بناپر مُکربھی گئی ،شاید اُسے کہیںسے یہ سُن گُن مل گئی ہوگی کہ ”امپائر”کی انگلی کھڑی نہیںہونے والی اوریہ توسبھی جانتے ہیںکہ ایم کیوایم گھاٹے کاسودا کبھی نہیںکرتی ۔ پارلیمنٹ کامشترکہ اجلاس یمن کی صورتِ حال پر بحث کرنے کے لیے بلایاگیا تھاجس میںوزیرِدفاع خواجہ آصف صاحب نے پالیسی بیان دیتے ہوئے یہ بتلایاکہ سعودی عرب نے پاکستان سے بری ،بحری اورہوائی مددطلب کی ہے ۔انتہائی اہمیت کاحامل یہ اجلاس شورشرابے اورتحریکِ انصاف کے استعفوںکی نذر ہوگیا۔ شاید جمہوریت کا حسن اسی کوکہتے ہیں۔

Prof Riffat Mazhar

Prof Riffat Mazhar

تحریر : پروفیسر رفعت مظہر