
اُس تھنک ٹینک کے ایک ممبر نے اِس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ پاکستان کے سوات اور ریکوڈک میں کم ازکم دو ہزار بلین ڈالر کا سونا موجود ہے، پاکستان اُس طرف کوئی توجہ کیوں نہیں دیتا۔ اُنہوں نے بڑھتی ہوئی مہنگائی کا آسان سا حل بھی بتایا کہ حکومت صرف کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں پر کنٹرول کرے۔ اُن پر سبسڈی دے۔ اُس کے علاوہ جتنی چیزیں ہیں اُن پر ٹیکس ڈبل کردے۔ سگریٹ پر ٹیکس برطانیہ کی طرح ایک ہزار گنا کردے۔ سرکاری کالجوں اور یونیورسٹیوں کو بہتر کر کے پرائیویٹ اسکولوں اور کالجوں پر ٹیکس کی شرح کئی گنا کردے۔ جرائم پر سزائوں کے ساتھ جرمانے کی رقم میں سو گنا اضافہ کرے بلکہ کئی جرائم کی سزائیں ختم کر کے اتنا زیادہ جرمانہ رکھ دے جو قابلِ برداشت نہ ہو۔ پورے ملک کی سڑکوں پر کیمرے نصب کر دے ایک تو ٹریفک نظام درست ہوجائے گا، دوسرا ہر ماہ اربوں روپے جرمانے سے جمع ہونگے۔ بائیس گریڈ تک تمام آفیسرز سے سرکاری گاڑیاں واپس لے لے، آفیسرز یا تو اپنی گاڑیاں استعمال کریں یا لوکل ٹرانسپورٹ۔ تمام افسروں سے سرکاری گھر واپس لے لئے جائیں یا تو وہ اپنے گھروں میں رہیں یا کرائے کے گھروں میں۔ برطانیہ میں حکومت نہ تو کسی سرکاری افسر کو گھر فراہم کرتی ہے اور نہ گاڑی۔
بات تھی ’’ٹیکس ایمنسٹی اسکیم‘‘ کی۔ وفاقی کابینہ نے جس کی منظوری دی ہے۔ بظاہر یہ تمام تجاویز اِس اسکیم کے متضاد ہیں مگر حقیقت میں ایسا نہیں۔ مشیرِ خزانہ نے اِس کے متعلق واضح طور پر کہا ہے کہ جو افراد عوامی عہدہ رکھتے ہیں وہ اِس اسکیم سے استفادہ نہیں کر سکتے بلکہ وہ لوگ بھی جو عوامی عہدے رکھنے والوں کے زیر کفالت ہیں۔ یہ اسکیم بے نامی جائیدادوں کو قانون کے دائرے میں لانے کے لئے لائی گئی ہے۔ بلیک منی رکھنے والوں کو آخری موقع دیا گیا ہے۔ بقول مشیر خزانہ جو لوگ اِس اسکیم سے فائدہ نہیں اٹھائیں گے اُن کی جائیدادیں ضبط کر لی جائیں گی۔ ایف بی آر کے چیئرمین شبر زیدی نے یہ بھی کہا ہے کہ بے نامی جائیداد پر کم سے کم سزا پانچ سال ہو گی۔ (ن)لیگ اپنے دورِ اقتدار میں پانچ مرتبہ یہ ایمنسٹی اسکیمیں لا چکی ہے، پاکستان میں پہلی ایمنسٹی اسکیم صدر ایوب نے متعارف کرائی تھی مگر ان اسکیموں سے کوئی بڑا فائدہ نہیں ہوسکا تھا۔ صدر مشرف کی ایمنسٹی اسکیم سے صرف ایک سو پندرہ ارب وائٹ ہوئے تھے اور شاہد خاقان عباسی کی ایمنسٹی اسکیم سے ایک سو چوبیس ارب، جو پاکستان جیسی بڑی معیشت کے لئے اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہیں، اِن اسکیموں کی ناکامی کا اصل سبب یہ ہے کہ جب اسکیم کا دیا ہوا وقت ختم ہوتا ہے تو اُس کے بعد بھی قانون حرکت میں نہیں آتا۔ اب بھی لوگوں کا یہی خیال ہے۔ اگر موجودہ حکومت نے اس اسکیم کے بعد تمام بلیک منی رکھنے والوں کے خلاف سچ مچ کارروائی کی تو شاید پھر کوئی بہتری ممکن ہو، ورنہ نہیں۔ ویسے یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی کہ یہ جو سو ڈیڑھ سو ارب روپے اس اسکیم سے وائٹ ہونا ہیں اُس کی اتنی ضرورت کیوں محسوس کی گئی۔ اس کے بجائے کالے دھن کے خلاف ایمرجنسی کا نفاذ کیوں نہیں کیا گیا۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ یہ کچھ مخصوص لوگوں کو بچانے کے لئے لائی گئی ہے کیونکہ حکومت کالے دھن کے لئے کسی بڑی کارروائی کا پروگرام ترتیب دے چکی ہے اور کچھ لوگ کچھ لوگوں کو بچانا چاہتے ہیں۔ مسئلے کا بس وہی ایک ہی حل ہے ’’انفاق‘‘۔ سرمایہ کی مکمل اور مسلسل گردش۔








