counter easy hit

ایک دن کے لیے ملک کے حالات بہت اچھے رہے

کچھ عرصہ سے بلکہ کافی عرصہ سے ملک کے حالات خراب تھے۔ آئے دن کوئی نا کوئی بری خبر ہی مل رہی ہوتی تھی۔ صبح کے اخبارات میں سیاست دانوں کی بدعنوانیاں، دشمنیاں، پریشانیاں، اداروں پر تنقید اور اداروں کی سیاست دانوں پر تنقید، پس پشت قوتوں کی دہائی اور پس پشت قوتوں کی طرف سے دھلائی کی خبریں، قتل و غارت، لوٹ مار، راؤ انوار کا فرار، عدالت میں پیشی، اغوا اور قتل کی خبریں، کمسن بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات روز کا معمول تھیں۔

ٹی وی کھول لیں تو پہلے سے موجود ذہنی دباؤ اور بڑھتا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ انواع و اقسام کے نجی نیوز چینلز قسما قسم کی خبریں دوڑا رہے ہوتے تھے۔ دھماکے دار بریکنگ نیوز اپنی مخصوص دل دہلا دینے والی پس پردہ آواز کے ساتھ کچوکے دیتی تھیں۔ ٹی وی اسکرین کے نیچے چلنے والی پٹی پر بری سے بری خبریں چل رہی ہوتی تھیں اور قوم کو ذہنی اور جسمانی طور پر مریض بنا رہی ہوتی تھیں۔ کہیں از خود نوٹسز کی خبریں ہوتی تھیں تو کہیں از خود نوٹسز پر تبصرے اور بیانات چل رہے ہوتے تھے۔ نواز شریف کی احتساب عدالت میں پیشی دکھائی جا رہی ہوتی تھی تو عمران خان کی پریس کانفرنس کے چرچے چل رہے ہوتے تھے۔

ان سب کو دیکھ دیکھ کر نہ صرف ایک عام پاکستانی بلکہ دوسرے ملکوں کے رہنے والے بھی جو ہمارے میڈیا پر نظر رکھتے ہیں عجیب و غریب ذہنی تناؤ کا شکار رہتے تھے۔ مسلسل منفی خبروں کے باعث بے چاری قوم کا سوچ بھی منفی ہو کر رہی گئی تھی۔ ہر اچھی چیز کو بھی کسی سانحے، کسی بحران یا کسی مفاد کی بنیاد پر پرکھنا شروع کر دیا گیا تھا۔

ایسے میں پرسوں ایک عجیب ماجرا ہوا۔ پرسوں ٹی وی لگایا تو ہر طرف خوشی کا سماں ہے۔ پہلے تو آنکھیں ملیں کہ غلطی سے کہیں ناروے کے چینلز تو نہیں کھول بیٹھے۔ مگر پھر جیو، اے آر وائی، دنیا، سما، ایکسپریس اور ڈان وغیرہ کے شناسا بلکہ ہراساں ناموں کو دیکھا تو کچھ کچھ یقین آنا شروع ہوا کہ یہ اپنے ہی نجی چینلز تھے۔ صبح کی چائے کا کپ ہاتھ میں تھا مگر چائے بدمزہ ہو گئی جب پورے ستائیس نجی نیوز چینلز پر کوئی ایک بھی منفی خبر نظر نہیں آئی۔ ہر چینل پر خوشی کا عالم تھا۔ ہر نیوز کاسٹر چہک رہا تھا۔ اسکرینوں پر رنگ برنگے مناظر بہار دکھا رہے تھے۔ اور قوم سکتے کے عالم میں تھی۔ کسی کی سمجھ  میں نہیں آ رہاتھا کہ آخر کیوں ان نیوز چینلز نے یکایک خوشی بکھیرنی شروع کر دی ہے۔

تب یاد آیا کہ آج 25 مارچ ہے اور آج کراچی میں پی ایس ایل کا فائنل میچ اسلام آباد یونائیٹد اور پشاور زلمی کے مابین کھیلا جانے والا ہے۔ نو برس کے بعد کراچی میں کرکٹ بحال ہو رہی ہے اور قوم خوشی میں بے حال ہو رہی ہے۔ اس سے پہلے لاہور میں لاہوری بے حال ہو چکے تھے۔ پچیس سے تیس ہزار وہ جو خوشی سے بے حال ہوئے کہ وہ قذافی اسٹیڈیم میں میچ دیکھ رہے تھے۔ اور اس سے کچھ زیادہ تعداد غصے میں بے حال ہوئی جن کو راستوں کی بندش کی وجہ سے پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر آفرین ہے لاہور والوں پر جنہوں نے اپنے جوش و خروش اور جذبے سے دنیا پر یہ واضح کیا کہ پاکستان ایک پر امن اور خوشیاں منانے پر یقین رکھنے والی قوم ہے۔ اور اسی خوشی نے پرسوں نیوز چینلز کو مجبور کر دیا تھا کہ وہ تمام منفی خبروں کو بھول کر صرف مثبت اور خوشیوں بھری ٹرانسمیشن چلا رہے تھے۔

اب ان خوشیوں کا رخ کراچی کی طرف تھا جہاں کچھ عرصہ قبل تک ایسی خوشیوں کا تصور بھی مشکل تھا۔ مگر اس دن کراچی والوں کے چہرے خوشی سے کھلے ہوئے تھے۔ وہ پرجوش تھے۔ پر امید تھے۔ ہنس رہے تھے۔ گا رہے تھے اور کرکٹ کو کراچی میں خوش آمدید کہ رہے تھے۔ اسلام آباد یونائیٹڈ یہ فائنل میچ جیت گیا۔ مگر اصل جیت امن کی ہو گئی۔ فتح کا تاج پاکستانی قوم کے سر پر سج گیا۔

ان خوشیوں کو پوری قوم کے ساتھ شیئر کرنے میں ہمارے نیوز چینلز کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ اس دن میڈیا پر چاہے ایک دن کے لیے ہی سہی مگر ملک کے حالات بہت اچھے رہے۔ اگر ہمارا میڈیا 25 مارچ کے دن کو مثال بنا لے اور روز منفی کے بجائے مثبت خبروں کو ترجیح دے تو قوم کی مایوس اور منفی سوچ دیکھتے ہی دیکھتے امید اور یقین میں بدل سکتی ہے۔

مجھے تو یقین ہے کہ ایسا ہی ہوگا۔