counter easy hit

شہدائے کربلا کی تعداد اور حقیقت کا رونگٹے کھڑے کر دینے والا پس منظر

The ringstorm of the number and reality of honeybird curbella

بعض مؤرخین نے شہدائے کربلا کی صحیح فہرست پیش کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن تحقیقی مآخذ محدود ہونے کے سبب، حقیقی اور صحیح اعداد و شمار پیش کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ کل شہداء: مشہور ترین قول یہ ہے کہ شہدائے کربلا کی تعداد 72 ہے۔امام باقر اور امام صادق علیہما السلام سے فضیل بن زبیر نے روایت کی ہے کہ قیام کے آغاز سے آخر تک تمام شہداء کی تعداد 106 ہے جن میں وہ افراد بھی شامل ہیں جو زخمی تھے اور بعد میں شہید ہوئے ہیں: 86 اصحاب اور 20 ہاشمی،ابو مخنف، زحر بن قیس کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ امام حسین کے علاوہ بقیہ شہداء کی تعداد 78 ہے۔ لیکن دیگر مؤرخین زحر بن قیس ہی کے حوالے سے شہداء کی تعداد 32، 70 سوار نیز 77، یا 82، اور 88 بتاتے ہیں۔ابوزید بلخی (وفات 322 ھ) اور مسعودی نے شہدائے کربلا کی تعداد 87 بیان کی ہے۔علامہ سید محسن امین عاملی، نے قیام عاشورہ کی ابتداء سے انتہاء تک کے شہداء کی تعداد 139 لکھی ہے۔شیخ شمس الدین نے اس سلسلے میں ایک تجزیاتی بحث پیش کی ہے اور شہداء کی تعداد 100 سے کچھ زیادہ بیان کی ہے۔شیخ محلاتی نے ابتدائے قیام سے انتہاء تک کے شہداء کی تعداد 228 بیان کی ہے۔ انہوں نے اسیران اہل بیت کی کوفہ میں موجودگی کے وقت شہید ہونے والے جان نثار عبد اللہ بن عفیف کو بھی شہدائے کربلا میں شمار کیا ہے۔ایک مؤلف نے ابتدائے قیام سے انتہاء تک کے شہداء کی تعداد 182 بیان کی ہے۔تاہم وہ روایات جو دلالت کرتی ہیں کہ شہدائے کربلا کی تعداد 72 ہے، قدیم مآخذ میں نقل ہوئی ہیں اور زیادہ شہرت رکھتی ہیں۔ بنو ہاشمشہدائے کربلا میں بنو ہاشم کے شہداء کے بارے میں کافی مختلف روایات ہیں جو ان کی تعداد 9 سے 30 تک بتاتی ہےمشہورترین روایت کے مطابق شہدائے بنی ہاشم کی تعداد 17 ہے۔ البتہ ان میں سے زیادہ تر مآخذ میں امام حسین کو شمار کئے بغیر، شہداء کی تعداد 17 بیان ہوئی ہے اور بعض اعداد و شمار ائمۂ معصومین علیہم السلام سے منقولہ مختلف روایات کے ضمن میں بیان ہوئے ہیں۔قدیم ترین تاریخی نصوص میں شہدائے بنی ہاشم کی تعداد 20 بتائی گئی ہے اور ان میں امام حسین اور مسلم بن عقیل کے نام بھی دکھائی دیتے ہیں۔نیز شیخ صدوق، ابن شہر آشوب،اور ابن ابی الحدید نے بھی یہی اعداد و شمار پیش کئے ہیں لیکن ان میں مسلم بن عقیل کو شامل نہیں کیا۔مزید روایات بھی ہیں جن میں یہ تعداد 9 سے 30 تک بتائی گئی ہے۔تمام متعلقہ روایات کو مد نظر رکھا جائے تو جو روایات، بنو ہاشم کے شہداء کی تعداد 17 بتاتی ہیں، زیادہ قابل قبول لگتی ہیں کیونکہ یہ روایات قدیم اور کثیر بھی ہیں اور پھر یہ تعداد ائمہ علیہم السلام سے منقولہ روایات میں بھی بیان ہوئی ہے۔شہداء کی مائیں : شہدائے کربلا میں سے 8 شہیدوں کی مائیں کربلا میں تھیں جن کی آنکھوں کے سامنے ان کے لخت جگر مظلومانہ شہید کیے گئے:حضرت علی اصغر کی والدہ، حضرت رَباب،عون بن عبد اللہ بن جعفر کی والدہ حضرت زینب علیہا السلام،قاسم بن حسن کی والدہ رملہ، نفیلہ یا نرگس نامی ام ولد،عبد اللہ بن حسن کی والدہ بنت شلیل جلیلیہ،عبد اللہ بن مسلم کی والدہ رقیہ بنت علی ،محمد بن ابی سعید بن عقیل کی والدہ عبدہ بنت عمرو بن جنادہ، عبداللہ بن وہب کلبی کی والدہ، ام وہب۔نیز بعض روایات کے مطابق علی اکبر کی والدہ لیلی بنت ابی مرّہ بن عروہ بن مسعود ثقفی، بھی کربلا میں تھیں لیکن کربلا میں ان کی موجودگی ثابت نہیں ہے۔قیدی بنا کر شہید کئے گئےامام حسین کے اصحاب و انصار میں سے 2 افراد ابتداء میں یزیدی لشکر کے ہاتھوں اسیر ہوئے اور بعد میں شہید ہوئے:سوار بن منعم ہمدانی (زیارت رجبیہ میں ان کا نام “سوار بن ابی عمیر نہمی‏” ہے)۔موقع بن ثمامہ صیداوی (ألمُوَقَّع یا “المُرَقَّع” بن ثمامہ اسدی)۔امام حسین کے بعد شہادت پانے والےامام حسین کے چار اصحاب آپ کی شہادت کے بعد جام شہادت نوش کرگئے:سعد بن الحرث اور ان کے بھائی ابو الحتوف بن الحرث،سوید بن ابی مطاع جو زخمی ہوگئے تھے،محمد بن ابی سعید بن عقیل, اپنے باپ کے سامنے شہید ہونے والے امام حسین کے کئی اصحاب اپنے باپ کے سامنے شہید ہوئے:,علی اکبرعلی اصغر,عمرو بن جنادہ,عبداللہ بن یزید,مجمع بن عائذ,عبدالرحمن بن مسعود,حسینی فوج کا بلحاظ قبائل ڈھانچہ,ایک محقق نے 113 شہداء کی فہرست تیار کی ہے جن کا تعلق بنو ہاشم اور دوسرے قبائل سے ہے:ہاشمی اور ان کے موالی (مع مسلم بن عقیل): 26 افراد،,اسدی : 7 افراد،ہَمْدانی: 14 افراد،مَذْحِجی: 8 افراد،انصاری: 7 افراد،بَجَلی اور خثعمی: 4 افراد،کندی: 5 افراد،غِفاری: 3 افراد،کلبی: 3 افراد،اَزْدی: 7 افراد،بنو عبدیان: 7 افراد،تیمی: 7 افراد،طائی: 2 افراد،تغلبی : 5افراد،جُہَنی: 3 افراد،تمیمی: 2 افراد،متفرقہ: 3 افراد۔پہلے حملے کے شہداءکچھ مآخذ نے لکھا ہے کہ یزیدی لشکر کے ابتدائی ظالمانہ بڑے حملے میں امام حسین کے 50 ساتھیوں نے جام شہادت  نوش کیا۔جسم پر گھوڑے دوڑانے والے افراد ;کچھ مآخذ میں صرف امام حسین کے بدن شریف پر گھوڑے دوڑائے جانے کا ذکر ہے لیکن اس گھٹیا اور بزدلانہ فعل میں شریک افراد کا نام نہیں لیا گیا۔ البتہ اکثر مآخذ نے ان کی تعداد 10 بیان کی ہے۔جسم پر لگنے والے زخممؤرخین نے سید الشہداء کے بدن پر لگنے والے زخموں کی تعداد بھی بیان کی ہے اور ان کے درمیان اس سلسلے میں اختلاف ہے:امام صادق سے منقول روایت کے مطابق امام حسین کے جسم مطہر پر نیزوں کے 33 اور تلواروں کے 34 زخم لگے۔اور امام صادق ہی سے منقول دیگر روایت میں نیزوں کے 33 اور تلواروں اور تیروں کے 44 زخم بیان ہوئے ہیں۔طبری کی روایت میں نیزوں کے 33 اور تلواروں کے 44 زخم بیان ہوئے ہیں اور ایک اور روایت میں امام صادق سے مروی ہے کہ سید الشہداء کے جسم شریف پر صرف تلواروں کے ستر گھاؤ تھے۔امام باقر سے منقول ایک روایت میں زخموں کی تعداد 320 بیان ہوئی ہے۔ ابن شہرآشوب نے تین اور اقوال بھی لکھے ہیں: 1ـ 360 زخم؛ 2ـ 1900 زخم؛ 3ـ تیروں کے علاوہ تلواروں کے 33 زخم۔ اور ایک روایت میں منقول ہے کہ سید الشہداء کے جسم مطہر کو تلواروں، نیزوں اور تیروں کے 63 زخم لگے تھےامام سجاد سے نقل ایک روایت میں نیزے کے زخم اور تلوار کی ضرب سے 40 جراحتیں بتائی گئی ہیں۔بعض مآخذ میں منقول ہے کہ سید الشہداء کے جسم مطہر اور لباس میں تیروں، نیزوں اور تلواروں کے 110 نشانات پائے گئے۔اسی طرح کی روایت ابن سعد نے بھی نقل کی ہے۔بعض مآخذ نے تلواروں، تیروں اور پتھروں کے 120 زخم نقل کئے ہیں۔ابن سعد نے 33 زخم لکھے ہیں۔ قاضی نعمان نے بھی ایسی ہی روایت نقل کی ہے۔علی بن محمد عَمری اور ابن عنبہ (وفات 828 ھ) نے 70 زخم اور ابن طاؤوس نے 72 زخم لکھے ہیں۔لگتا ہے کہ جسم مطہر کو لگنے والے زخموں کی تعداد 100 سے زائد تھی۔ جو روایات ظاہر کرتی ہیں کہ آپ کو اس قدر تیر لگے تھے کہ آپ کا جسم مطہر تیروں میں چھپا ہوا تھا، اسی رائے کی تائید کرتی ہیں۔کربلا میں آنے والے گھرانے:بعض معاصر قلمکاروں نے لکھا ہے کہ کربلا میں اہل بیت کے علاوہ تین شہداء کے گھرانے (اہل و عیال) بھی ساتھ تھے:جنادہ بن کعب بن حرث (یا حارث) سلمانی انصاری،عبداللہ بن عمیر کلبی،مسلم بن عوسجہ۔اس موضوع کے تفصیلی جائزے سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم بن عوسجہ کے گھرانے کی کربلا آمد کا کوئی تاریخی حوالہ موجود نہیں ہے گو کہ بعض مآخذ میں ہے کہ ان کی ایک کنیز عاشور کے دن کربلا میں موجود تھی۔کربلا کے شہید صحابہ کرام:اصحاب سید الشہداء میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کئی صحابہ بھی تھے: فضیل بن زبیر کے مطابق امام حسین کے رکاب میں شہادت پانے والے افراد میں صحابہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعداد اور مسعودی کے بقول 4 تھی اور یہ افراد امام حسین کے اصحاب و انصار میں سے تھے اور عاشورہ کے دن کربلا میں شہید ہوئے۔ بعض معاصر مؤرخین و محققین نے صحابہ کی تعداد 5 بیان کی ہے:، یعنی:خود امام حسین اور امام کے علاوہ 5 صحابہ کرامانس بنحارث کاہلی،حبیب بن مظاہر اسدی،مسلم بن عوسجہ اسدی،ہانی بن عروہ مرادی،عبد اللہ بن يقطر حمیری جو امام حسین کے رضاعی بھائی بھی تھے۔صلی اللہ علیہ والہ وصحبہ وازواجہ وبارک وسلم کثیراً کثیرا

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website