counter easy hit

بابا نتھو کی پریشانی

‘ارا چھوری پاں ڑیں پیا دے چلو بھر۔’

بابا نتھو نے جھگی میں سے آواز لگائی۔

‘ارا چھوری تیں بات نہیں سنڑیں میری۔’

‘بابا سنڑ لیں تیری بات۔ مونجی لگا لی ہے۔ کیا تونے پیٹ ماں بار، بار مانگے۔ ایک مٹکا پانی کا۔ اب تو اس ماں بھی دو تین چلو پاں ڑیں رہ گیا ہے۔ کسی نیانے، نے۔ مانگ لیا توکیا دوں گی۔’

‘ارا چھوری سورج سوا نے جے پہ ہے، پیاس بھی نہ لگے تو اور کیا ہو۔’

بابا نتھو نے اپنی بے ترتیب داڑھی میں انگلیاں ڈالتے ہوئے کہا۔

‘کج سمج نیئں آوے۔ ہر طر ف پاں ڑیں کی ہا ہا کار مچی ہوئی ہے لیکن سرکار ہے کہ خاموش بیٹھی ہے۔ ایہاں پاں ڑیں کی ہا ہا کار مچی ہوئی ہے پر کوئی کان دھرنے کو تیار نئیں۔

کوٹھیاں، بنگلوں میں پاں ڑیں بے دردی سے استعمال ہووے۔ پھل پھلواری، باگاں کو انھے منہ پاں ڑیں لگاویں۔

کاراں، گڈیاں کو یہ دھویں، گلی محلوں میں پاں ڑیں کے ترونکے اس طرح لگیں کہ کوئی پوچھن ہار نئیں۔ ادھر ہم گریباں کو پینے کےبھی لالے پڑ گئے۔ گھڑے بھی خسک رہویں۔ جے ساب لوکاں کو تو کوئی پھکر نیئں۔ ان کے ہاتھاں میں تو بوتلاں پکڑی ہوتی ہیں۔

رب جا ڑیں، ان ماں کیا ملا ہوتا ہے، بوتلاں میں۔ اپنے نصیباں میں تو ان کی پھینکی پھانکی کھالی کھولی بوتلاں ہی آویں۔

کل میں جب بجار میں مانگنے کے لئے نکلا تو کج بابو آپس ماں میں پاں ڑیں بارے ہی باتاں کر رہے تھے۔ ان میں سا ایک بابو کہہ رہا تھا کہ اب کی جو بھی جنگ ہو گی وہ پاں ڑیں کارن ہووے گی۔

سمج میں نہ آوے دنیا کے سارے پڑھے لکھے لوکاں کو اپنے پھائدے کی بھی بات سمج نہ آوے۔ کوئی کسی کا پاں ڑیں روکے کھڑا اور کوئی کسی کا۔

بئی سارے آں کو پاں ڑیں کی جرورت ہے۔ کوئی اک بات طے کر لو آپس ماں۔’

‘چل بابا! لے یہ پاں ڑیں پی۔ تو کیا بے کار کی باتاں میں الجھ رہا ہے اور ہاں جلد بالکوں کو دھندے پر بھیج، کوئی روکھڑا اور کھان پین کو ملے۔’

‘اچھا۔ ‘بابا نتھو نے گلاس منہ سے ہٹاتے ہوئے کہا۔

‘چلو بھئی بالکو، سب جمع ہوجاؤ ایہاں۔’

جھگی میں جا بجا گندے کپڑوں کے ڈھیر۔ مکھیوں کی بھن بھن اور ننگ دھڑنگ میل سے اٹے ہوئے بچے بابا نتھو کے اگلے حکم کے منتظر تھے۔

سارے بالکے بابا نتھو کی آواز پر جمع ہونا شروع ہو گئے۔

‘ہاں بھئی بالکو! چلو جہاں سے چھوڑا تھا، وہیں سے سروع کرتے ہیں۔’

بابا نتھو نے کہا۔

‘او رے سیرو! چل تو آگے۔ تیری آواج بڑی قراری ہے۔

اور بگو! تیں نے سیرو کے ساتھ مل کر آواج ماں آواج ملا ڑیں اے۔

چلو ساباس۔’ بابا نتھو بولا۔

‘نیک مائی نیک بابا دے خدا کی راہوں میں۔

اللہ والے نیک بابا، دے خدا کی راہوں میں۔

اب ایک بات سنو، کوئی دروجا اس بقت تک نہیں چھوڑنا جب تک واں سے کج نہ کج مل جاوے اور ہاں برتن ساتھ رکھیو۔ آٹا تھیلے میں ڈالیو۔

روکھڑا بار بار مانگیو۔ سالن روٹی، چاول اور جو کج بھی ملے چھوڑنا کج نئیں۔

چلو ساباس۔ ریڑھی تیار کر۔ سیرو اور بگو کو بیچ ماں بٹھا اور جاؤ دھندے پر۔

ارا مولا! تو ای ان اپنے بندوں کو سمجھا دے۔ پاڑیں ہی جندگی ہے۔

پاڑیں نہیں تو کج بھی نہیں۔

ان کی سمجھ میں کب جے بات آوے گی؟’