counter easy hit

عام انتخابات 2018 کی ایک لاحاصل مشق

انتخابات کی آمد آمد ہے۔ جس وقت آپ یہ مضمون پڑھ رہے ہوں گے اس وقت انتخابات میں محض چھ دن باقی رہ گئے ہوں گے۔

انتخابات میں کیا ہو گا؟ کون سی جماعت انتخابات میں کامیابی حاصل کرے گی، کون سی جماعت یا جماعتوں کو شکست ہو گی۔ اس کا فیصلہ پچیس جولائی کو عوام کر ہی دیں گے۔ ظاہر ہے انتخابات ہوتے ہی اس لیے ہیں کہ عوام اپنے نمائندوں کا انتخاب کر کے انہیں پارلیمنٹ میں بھیجیں۔

سوال مگر یہ ہے کہ جن عوام کو یہ فریضہ ہر پانچ سال کے بعد ادا کرنا ہوتا ہے آیا وہ اس فریضہ کو پوری طرح ادا کرنے کے لیے تیار بھی ہیں یا نہیں۔ کیا عوام کی سیاسی تربیت اس قدر ہو چکی ہے کہ وہ اپنے نمائندے  اس کی سیاسی جماعت کے پیش کیے گئے منشور کے مطابق چنیں۔ اگر ہم ملک میں جاری مختلف سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہمات کا جائزہ لیں تو اس سوال کا جواب واضح نفی میں ملتا ہے۔

عوام کی سیاسی تربیت کرنا سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے لیکن ہمارے ملک کی سیاسی جماعتیں اکا دکا استثنا کے علاوہ اس ذمہ داری کو پورا کرنے میں قطعی طور پر نہ صرف یہ کہ ناکام ہیں بلکہ وہ اس بات کا ادراک ہی نہیں رکھتیں کہ ان کی بنیادی ذمہ داری عوام میں سیاسی شعور کی آگاہی ہے۔ جمہوری ریاستوں میں جمہور کو سیاسی جماعتوں کے منشور سے آگاہی فراہم کرنا سیاسی جماعتوں کی اولین ترجیح ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ کامیاب جمہوری ریاستوں میں عوام کا جمہوریت اور جمہوری اداروں پر غیر متزلزل یقین ہوتا ہے اور وہ پوری ذمہ داری سے اپنی انتخابی ذمہ داری کو پورا کرتے ہیں۔

اس کے برعکس ہمارے ملک میں سیاسی جماعتوں کا منشور ان کی ترجیحات کی فہرست میں ضمنی طور پر منسلک ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی تین بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ نواز، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے اپنے اپنے منشور کی رونمائی انتخابات سے محض دو ہفتے قبل طوعاً و کرہاً کی ہے۔ اس قدر مختصر وقت میں منشور کا جمہور تک ابلاغ ناممکن نہ بھی سہی تو انتہائی مشکل ضرور ہوتا ہے۔ اور عجلت زدہ ابلاغ اور تو سب کچھ ہو سکتا ہے مگر قابل فہم نہیں ہو سکتا۔

اسی لیے عوام میں جو بیانے قبولیت پا رہے ہیں وہ تلخی اور نفرت پر مبنی ہیں۔ جو راہنما اپنے مخالفین کی جتنی زیادہ مٹی پلید کرتا ہے اتنا ہی مقبول ہوتا جاتا ہے۔ انتخابی میدان میں موجود دو بڑے فریق اس وقت مکمل طور پر ایک دوسرے کے دشمن کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ بے رحمی سے کردار کشی جاری ہے۔ ایک آگ ہے جو ہر طرف لگی ہوئی ہے اور اس آگ پر مسلسل تیل چھڑکا جا رہا ہے۔ کوئی بھی اس آگ کو بجھانے کو تیار نہیں ہو رہا۔ سب کو اس بات کا احساس ہے کہ یہ آگ بالآخر اپنا ہی گھر خاکستر کر دے گی مگر پھر بھی سب کے سب کھڑے تالیاں پیٹ رہے ہیں۔ ایسے میں منشور کہیں کونے میں منہ چھپائے کھڑا حسرت سے عوام کو دیکھ رہا ہوتا ہے کہ کاش عوام اپنی توجہ اس کی طرف پھیریں مگر اسے مایوسی ہوتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے سابقہ انتخابات کے برعکس ان اتنخابات میں تلخی اور نفرت کا عنصر پہلے سے کہیں بڑھ کر نظر آتا ہے۔ منشور اور کارکردگی کی بجائے نفرت اور تلخی پر مبنی انتخابی مہم میں اس مرتبہ نفرت کا ووٹ اپنی جگہ بنائے گا اور یہ پاکستان کے مستقبل کے لیے اچھی خبر نہیں ہے۔ تاہم اچھی امید رکھتے ہوئے یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اگر جمہوری سفر جاری رہا تو آنے والے دس سے پندرہ برس میں شاید پاکستان کی جمہوریت شاہراہ استحکام پر چڑھ جائے اور ہموار سفر شروع ہو جائے۔

حالیہ انتخابات میں تو اس کا تصور بھی محال ہے۔