counter easy hit

خاموش اکثریت کی طاقت

انتہائی غیر معمولی اور ہنگامی دور میں اگلے سال عام انتخابات ہونے جارہے ہیں، اگرچہ ملک کے ان حالات اور اقتصادی زبوں حالی کی وجہ سے فہمیدہ حلقوں میں عام انتخابات کے حوالے سے یہ شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں کہ شاید یہ انتخابات وقت مقررہ پر نہ ہوں لیکن بااختیار حلقوں کی جانب سے بار بار کی اس یقین دہانی کے بعد جمہوریت کا تسلسل جاری رہے گا۔

سیاستدان 2018 کے ممکنہ انتخابات کی زور و شور سے تیاریوں میں مصروف نظر آتے ہیں اور یہ ہمارے عوام کی نااہلی ہے کہ وہ سو بار آزمائے ہوئے رہنماؤں اور ان کی جماعتوں کے جلسوں جلوسوں کی رونق بڑھانے میں مصروف ہیں، اگرچہ ان جلسوں جلوسوں میں زیادہ تعداد دیہاڑی دار اور شخصیت پرست عوام کی ہوتی ہے اور 80 فیصد سے زیادہ خاموش اکثریت ان شو شا کے جلسوں جلوسوں میں شامل نہیں ہوتی لیکن میڈیا کے حوالے سے عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ’’عوام ہمارے ساتھ ہیں‘‘۔ اگر عوام اپنے قاتلوں کے ساتھ ہوسکتے ہیں تو بلاشبہ عوام ساتھ ہیں لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے کیونکہ عوام 70 سال سے جن مسائل کے شکار ہیں ان مسائل کے ذمے داروں کے ساتھ منطقی طور ساتھ ہو ہی نہیں سکتے۔

ہمارا ملک 70 سال سے جس خطرناک اور شرمناک پرانا نظام کا سامنا کر رہا ہے اس میں تبدیلی کے بغیر خواہ کتنا ہی پروپیگنڈہ کیوں نہ کیا جائے عوام کے مسائل حل ہوسکتے ہیں نہ سیاسی نظام میں کوئی تبدیلی آسکتی ہے۔ اس حوالے سے اس نمایاں حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ باری باری کا جو جمہوری کھیل عشروں سے ہمارے ملک میں جاری ہے اس کے اداکاروں کے لوٹ مار کے کارناموں سے ہمارا میڈیا بھرا ہوا ہے، لوٹ مار بھی چھوٹی موٹی نہیں اربوں کی۔

ایسے ہی عادی اکابرین آج ایک بار پھر انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ ان دعوؤں کے ساتھ عوام میں آرہے ہیں کہ وہی ان کے نجات دہندہ ہیں اور ان کی جہنم زار زندگی کو جنت میں بدل سکتے ہیں۔ چونکہ ان سیاسی اکابرین کے پاس اربوں روپوں کا سرمایہ ہے جس کے ذریعے وہ کرائے کے حاضرین کو اپنے جلسوں جلوسوں میں لاسکتے ہیں لہٰذا انھیں یقین ہوتا ہے کہ وہ ان مصنوعی ہجوموں کے ذریعے عوام کو اپنے دام فریب میں مبتلا کرکے انتخابات کا میدان مار لیں گے اور ماضی کے تجربات کی روشنی میں ان کی یہ امید غلط بھی نظر نہیں آتی۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ آج ہمارا میڈیا ان کرم فرماؤں کی کرپشن کی داستانوں اور عوام کے تلخ تجربات کی خبروں سے بھرا ہوا ہے اس پر بھی ان محترمین کی نظر نہیں جاتی ان ’’کارناموں‘‘ سے شرمسار ہونے کے بجائے یہ مدبرین بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اپنے ’’ماضی کے کارناموں‘‘ کو فخریہ عوام کے سامنے پیش کر رہے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ 2018 کے الیکشن میں عوام انھیں ووٹ دے کر ایک بار پھر انھیں اقتدار میں لائیں گے۔

ان سیاسی اکابرین کو یقین ہے کہ شخصیت پرستی کے عادی عوام ان کے کارناموں کو نہیں دیکھیں گے بلکہ ان کے حسب و نسب، ان کی خاندانی حیثیت اور معاشرے میں ان کا مقام دیکھ کر اپنے ووٹ انھیں ہی دے دیں گے۔ ان اکابرین کی یہ توقعات غلط اس لیے نہیں کہلا سکتیں کہ بار بار کے تجربات یعنی انتخابات میں ’’کسی نہ کسی‘‘ طرح یہی زعما کامیاب ہوتے رہے ہیں۔ یہاں افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اشرافیائی سیاست کو مستحکم کرنے میں ہمارا میڈیا دانستہ یا نادانستہ اہم کردار ادا کر رہا ہے اشرافیہ کے شاہوں، شہزادوں اور شہزادیوں کے چھینکنے، کھانسنے، اٹھنے بیٹھنے تک ہر حرکت کو میڈیا میں ایسی جگہ دی جاتی ہے کہ عوام کا متاثر ہونا فطری بن جاتا ہے۔

اشرافیہ کے خاندانی جھگڑوں اور صلح کی خبریں اس اہتمام کے ساتھ میڈیا میں آتی ہیں کہ یہ کوئی اہم قومی مسائل ہیں۔ اس قسم کے پروپیگنڈے کا عوام کی نفسیات پر اثر پڑنا فطری ہوتا ہے۔ اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اشرافیہ ایک موثر اور پراثر حکمت عملی کے ساتھ ایک دوسرے کی مخالفت کا جو مصنوعی ڈھونگ رچاتی ہے اور میڈیا جسے شاہ سرخیوں کے ساتھ پیش کرتا ہے اسے عوام حقیقت سمجھ بیٹھتے ہیں اور اس حقیقت کو نظرانداز کردیتے ہیں کہ اس قسم کے حربے اشرافیہ کی ضرورت ہوتے ہیں جس کا مطلب و مقصد عوام کی ہمدردیاں اور حمایت حاصل کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ عوام کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ اشرافیہ کے مفادات اور قومی دولت کو لوٹنے کی آزادی کی یہ ضرورت ہوتی ہے کہ وہ پبلک میں خواہ اختلافات کے کتنے ہی ڈرامے کریں طبقاتی اتحاد ان کی زندگی اور مفادات کے لیے ہر حال میں ضروری ہے۔

سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ان جماعتوں کی وہ سینئر قیادت جو اپنی پارٹی کی خدمت میں اپنے بال سفید کرچکی ہے اور دار و رسن کی آزمائشوں سے گزر چکی ہے اشرافیہ کے ان نوآموز شہزادوں اور شہزادیوں کے سامنے گردن جھکائے ہاتھ باندھے کھڑی رہتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان بزرگوں کے ذہنوں سے اپنی عمر اپنی خدمات اور اپنی قربانیوں کا احساس ختم ہوگیا ہے۔ دنیا کے جمہوری ملکوں میں حسب نسب رشتے ناتوں کو نہیں دیکھا جاتا بلکہ کسی ذمے دار عہدے کے لیے ان کی خدمات ان کی اہلیت ان کے تجربات کو اولیت دی جاتی ہے، لیکن ہماری اشرافیائی جمہوریت میں صرف حسب نسب رشتوں کو اولیت دی جاتی ہے اور اسی تناظر میں شہزادوں شہزادیوں کو عوام کے سروں پر مسلط کیا جاتا ہے۔

اس ملک کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ مڈل کلاس کی سیاسی اور مذہبی قیادت اشرافیہ کی عملاً تابعدار بنی ہوئی ہے اور ذاتی اور جماعتی مفادات کی خاطر حکمران اشرافیہ کی حمایت کرتی ہے اور طبقاتی اہمیت کو نظرانداز کردیتی ہے۔ چونکہ اس ’’روپیلی طبقے‘‘کے ذاتی اور جماعتی مفادات کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ زبانی کلامی برسر اقتدار طبقے کی مخالفت کرے لیکن اندر سے اس کی حمایت کرے۔ اس کا ایک مظاہرہ 2014 کی دھرنا تحریک کے دوران کیا گیا۔ جب اشرافیائی حکمرانی کو خطرہ لاحق ہوا تو مڈل کلاس کی سیاسی اور مذہبی قیادت نے ’’جمہوریت بچانے‘‘ کے نام پر پارلیمنٹ میں مورچہ لگا لیا۔

بلاشبہ ملک کی خاموش اکثریت یعنی سیاسی جلسوں جلوسوں اور اشرافیہ کی شعبدہ بازیوں سے دور رہنے والے عوام کی ایک بڑی سیاسی طاقت ہوتی ہے اگر وہ اپنی خاموشی توڑ کر انتخابات میں موثر طور پر کردار ادا کرے اور اشرافیہ کے خلاف اپنے ووٹ کی طاقت کا استعمال کرے تو اور کچھ ہو نہ ہو سیاست اور اقتدار سے لٹیری کلاس کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔

ملک میں کسی سیاسی رہنما یا سیاسی جماعت کو غریب طبقات کا نمایندہ نہیں کہا جاسکتا لیکن 70 سال کے ظالمانہ اسٹیٹس کو، کو توڑے بغیر نہ اس ملک میں عوامی جمہوریت آسکتی ہے نہ عوام کے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ ہماری اشرافیہ اس حوالے سے بڑی چوکنی ہے وہ پرانا نظام کو توڑنے کی اہلیت رکھنے والی کسی قیادت کو ہرگز آگے آنے نہیں دے گی اور اپنے سیاسی اختلافات کو پیچھے رکھ کر پرانا نظام دشمن قیادت کے خلاف اتنا شدید پروپیگنڈہ کرے گی کہ عوام ذہنی پراگندگی کا شکار ہوجائیں۔ عوام کا فرض ہے کہ وہ آزمائے ہوؤں کو دوبارہ نہ آزمائیں اور مڈل کلاس کی قیادت کی حمایت کریں۔