counter easy hit

احتساب: پکچر ابھی باقی ہے!

تادم تحریر سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف شاید احتساب کے ڈر سے پاکستان نہیں آرہے اور احتساب عدالتوں نے اُن کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے ہیں۔ اسحاق ڈار کے اثاثہ جات کو منجمد کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔ پیپلزپارٹی کے شرجیل میمن جیل کی سلاخوں کے پیچھے جا چکے ہیں۔ جہانگیر ترین کے اثاثہ جات کی چھان بین ہو رہی ہے۔ نیب کے نئے چیئرمین جسٹس(ر) جاوید اقبال نے میٹرو بس پراجیکٹ ملتان کے تمام حساب کتاب منگوا کر اُس میں مبینہ کرپشن کی کڑیاں تلاش کرنا شروع کر دی ہیں۔

سپریم کورٹ بھی نیب پر پوری طرح ’’نظر ‘‘رکھے ہوئے۔ بلوچستان سمیت  تمام صوبوں میں احتساب کا ادارہ نیب پوری طرح الرٹ دکھائی دے رہا ہے اور بظاہر یوں لگ رہا ہے کہ اب پاکستان میں کرپشن کرنا مشکل ہوگیاہے۔مگر گزشتہ روز ’’قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ‘‘ کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ رواں سال ایک بار پھر 8کھرب روپے کی سرمایہ کاری کی گئی ہے، یعنی پاکستان سے قومی سرمائے کی بیرون ملک ممکنہ غیر قانونی منتقلی کا ایک اور سکینڈل منظر عام پر آچکا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ اشرافیہ کے کرپٹ لوگ لوٹ مار کا پیسہ ہضم کرنے کے لیے کیا کچھ کر رہے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر سب ادارے ’’الرٹ‘‘ ہیں تو اب یہ منی لانڈرنگ ’’مریخی مخلوق‘‘ کر رہی ہے۔

آخر کار ان ائیر پورٹس یا دیگر پورٹس کے ذریعے سے ہی منی لانڈرنگ ہو رہی ہے نا!تو پھر کیا عوام کو بے وقوف بناکر اُن کی آنکھوں میں دھول جھونکی جارہی ہے۔ کیوں چور چوروں کو تحفظ دے رہے ہیں؟حکومت متحدہ عرب امارات سے پوچھنے سے ہی قاصر نظر آتی ہے کہ یہ پیسہ پاکستان سے کون لوگ امارات لے جا رہے ہیں ؟ اور کن شرائط پر انھیں دبئی میں سرمایہ کاری کرنے کی اجازت مل رہی ہے۔ اور دبئی جیسے ملکوں میں تو جتنا مرضی پیسہ لے جائیں اُس کی نہ کوئی حد ہے اور نہ ہی یہ پوچھا جاتا ہے کہ یہ پیسہ کن ذرایع سے لایا جا رہا ہے۔مجھ سمیت پوری قوم کو خوشی تھی کہ کڑے احتساب کے بعد پاکستان حقیقت میں ’’نیا پاکستان‘‘ بن کر اُبھرے گا، مگر یہاں تو آج بھی سیاسی قائدین، اُن کے چمچے کڑچھے، چاقو، چھریاں، کانٹے سب ہی دونوں ہاتھوں سے ملک کو لوٹ رہے ہیں۔

’’4سال میں ڈیم بنے نہ اسپتال۔ عوام ان سے پوچھیں 14800 ارب کا قرضہ کہاں گیا؟‘‘’’کرپشن نے ملک کا بیڑہ غرق کردیا جو اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس ناسور کے خاتمے کے لیے کردار ادا کرنا ہوگا۔‘‘ ’’جھوٹ، فریب ، مکر اور مداری سیاست نے پاکستان کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا‘‘کاش صدر صاحب ہمارے سسٹم کی بات کرتے ہوئے بھی فرماتے کہ صرف نواز شریف کا ہی نہیں ملک میں موجود تمام 450کرپٹ افراد جن پر مقدمات چل رہے ہیں اُن کا بھی ترجیحی بنیادوں پر احتساب ہونا چاہیے۔  قارئین کو یاد ہوگا کہ کچھ عرصہ پہلے نیب نے 150 میگا کرپشن کیسز سے متعلق فہرست سپریم کورٹ میں جمع کروائی تھی جس میں سابق وزیراعظم نواز شریف، وزیراعلیٰ پنجاب شہباز اور وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے ناموں کے علاوہ سابق صدر آصف علی زرداری، سابق وزرائے اعظم گیلانی، راجہ پرویز اشرف، چوہدری شجاعت سمیت کئی اہم شخصیات شامل تھیں۔

ان کیسز میں بڑے کیس، سڑکوں کی غیرقانونی تعمیر ، غیر قانونی بھرتیاں، ملین پاؤنڈز کی خردبرد، ذرایع آمدن سے زیادہ اثاثہ جات، آئل اینڈ گیس ریگولر اتھارٹی میں بے ضابطگیاں، توقیر صادق کی تعیناتی، کرائے کے بجلی گھروں کے ٹھیکوں میںمبینہ کرپشن، چوہدری برادران پر مبینہ کرپشن کے الزامات، ظفر گوندل کے خلاف 567ملین روپے کی کرپشن کا مقدمہ ، آر پی پی کیس، سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی کے خلاف 100 ملین کی انکوائری ، سابق وزیر داخلہ آفتاب شیرپاؤ کے خلاف کرپشن مقدمات ، حسین حقانی پر خرد برد کے الزامات وغیرہ وغیرہ ‘ اس کے علاوہ بلوچستان کے سیکڑوں کیسز زیر التوا ہیں۔

میگا کرپشن کیس کے ملزمان سابق سیکریٹری خزانہ مشتاق رئیسانی پر کھربوں روپے کی کرپشن کے الزام ہیں جن کے گھر سے 65 کروڑ 18 لاکھ روپے سے زائد مالیت کی ملکی اور غیر ملکی کرنسی برآمدکی گئی تھی، اسی طرح سابق مشیر برائے خزانہ اور نیشنل پارٹی کے رہنما میر خالد لانگو بھی تحقیقات میں مطلوب ہیں۔ ان کے علاوہ سیکڑوں کیسز ایسے ہیں جو زیر التوا ہیں۔ یہاں لوگ مرضی کا احتساب چاہتے ہیں، ادارے چاہتے ہیں کہ فلاں کا احتساب ہو، اور فلاں کا نہ ہو، اسی طرح حکومتیں ایسا احتساب چاہتی ہیں جن میںاُن کو اور اُن کے حواریوںکو کلین چٹ مل جائے۔ اپوزیشن چاہتی ہے کہ حکومت کا احتساب ہو اور وہ احتساب سے بچ جائیں۔

ہمیں ایک ایسا احتساب کا نظام چاہیے جو صاف شفاف ہو۔ اہلکار ہر کسی کے دباؤ اور لالچ سے پاک ہوں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ محض الزام پر ہی بعض شخصیات کی انتہائی منفی کردار کشی کردی جاتی ہے۔ اگر پاکستان میں یومیہ 5 ارب روپے کی کرپشن ہورہی ہے تو ماہانہ ہم ایک کھرب 50 ارب کھورہے ہیں۔ ہم دنیا کی کرپٹ ترین قوموں میں شامل کرلیے گئے ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ ہم جس مذہب کا نام لیوا ہیں اُس میں ایمان داری کو بلند ترین مقام دیا گیا ہے۔ ہمارے وزیر خزانہ جسے ترقی کہہ رہے ہیں وہ قرضے کی ببل گم سے بنایا ہوا غبارہ ہے جس کو پائیداری حاصل نہیں۔ ہم نے ان ساڑھے چار سالوں میں قرضے کے انباروں میں کئی گنا اضافہ کردیا ہے۔

ہم نے کئی شعبوں میں ترقی بھی کی ہے، مگر ہماری ترقی کو ٹھوس بنیادیں فراہم نہیں کی گئیں۔ احتساب کے سارے عمل کو بے وقعت کردینا بتا رہا ہے کہ ہم نے صحرا میں ترقی کی برف سے محل تعمیر کرنا شروع کردیا ہے۔ ہماری کوئی بھی بنیاد ٹھوس نہیں ہے۔ ہم شعبدہ باز جادوگروں میں گھرگئے ہیں۔ اس قوم کو ایسا سسٹم چاہیے جس میں کرپٹ افراد خود بخود شکنجے میں آجائیں، ایسا سسٹم نہیں چاہیے جس میں ایماندار افراد کی جگہ نہ بن سکے، اور وہ قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے رہے ہیں۔ جب کہ کرپٹ افراد کے لیے یہ ملک جنت بنتا جا رہا ہے۔ کاش ایسا ہو جائے کہ ان ایماندار افراد کو اُن کا ثمر ملے اور کرپٹ ترین افراد شکنجے میں آجائیں کیوں کہ میرے خیال میں کرپشن کے احتساب کے حوالے سے ابھی ٹریلر چل رہا ہے جب کہ پوری پکچر ابھی باقی ہے!

آخر میں استاد دامن کے ایک پنجابی گیت کی پیروڈی حاضر ہے

ساڈا پاکستان چنا کھنڈ دا کھڈونا

ویکھیں اینہوں کھا نہ جاویں