counter easy hit

ا حتساب کی پیمائش

The measure htsab

The measure htsab

جہاں کرپشن کی انتہا ہو گئی اربوں کھربوں لوٹنے والے اپنے آپ کو بچانا کے لیے سودا بازی کر لیتے ہیں کتنے واپس خزانہ کو کریں تو بچ سکتے ہیں غریب کو معمولی غلطی پر جیل بھیج دیا جاتا ہے سمجھ سے باہر ہے انٹی کرپشن کا محکمہ تو بنا دیا گیا لیکن دنوں میں امیر بننے والے سرکاری اور غیر سرکاری ملازموں کو نہ پکڑے گا اور ملک کی تقدیر کب بدلے گئی ملک میں اقربا پروری اور مفاد پرستی عروج پر ہے لیکن حکمرانوں صرف میڈیا ٹرائل کر کے عوام کو پاگل بنایا جارہاہے ہیں لیکن کسی کو گرفتار کر کے سزائیں نہیں دی جا رہی ہیں بلکہ جب کوئی ادارہ ان پر ہاتھ ڈالنے کا سوچتا تو اسکو دھمکی دے کرخاموش کر دیا جاتا ہے لوگوں کے دلوں میں خوشی کی لہر چل پڑی تھی کہ پاک فوج کے مخلص اور دلیرجرنیل کی محنت سے شاید ڈاکو لٹیرے سیاستدان اورانکے حواری جلد منطقی انجام کو پہنچے گئے لیکن اب کچھ مایوسی کی لہر چلنے لگی کیونکہ جس دن سے بہادر جرنیل نے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر وزیر اعظم کے ساتھ دورہ کیا عوام مایوس ہوگئے کہ احتساب کا شاید کوئی نیا پیمانہ شروع ہونے والا ہے جن پر زیادہ تو قع تھی وہ ہی خاموش ہوگے تو اب کچھ نہیں ہوگا کراچی میں کچھ احتساب کا دور چلا تھا گرفتاریاں بھی ہوئیں لیکن بڑے مگرمچھوں کو اسلئے گرفتار نہیں کیا گیا کہ حکومت کو خطرہ ہے اسی لیے وہ چاہتی ہے کہ ملک برباد ہوتا تو ہوجائے مگر حکومت نہ جائے پہلی دفعہ 85%عوام نے ملک بھر میں پاک فوج اور رینجرز کی کاروائیوں کو سراہا تھا لیکن جب دوسرے صوبوں میں کرپشن کے خاتمہ اور لیٹروں کی گرفتار یوں کا سلسلہ شروع ہونے لگا تو سربراہ مملکت نے دھمکی دے دی کیونکہ نیب نے تقریباً ملکی لیٹروں سے 300ارب روپے برآمد کر لیے اورباقی لیٹروں پر ہاتھ ڈالنا چاہیے جس ملک میں اداروں کی سطح پر غیر قانونی اور غیر آئینی کاروبار کیا جارہا ہو وہاں چند افراد کی کرپشن کے قصے سنا کر ان سے کچھ رقم برآمد کر کے کونسا جہاد کیا جارہا ہے جس ملک میں اداروں کو کاروبار کے لیے استعمال کیا جائے اس میں کسی کرپٹ کو کیسے پکڑا جائے پبلک کمیٹی صرف بیان بازی تک محدود ہے حالانکہ وہ ملکی خزانہ کی محافظ ہوتی ہے لیکن اب نئی کمیٹی اسکے اوپر بنائی جارہی ہے جو جانچ پڑتال کرے گی لیکن قوم کو کبھی نہیں بتایا گیا کہ کسی سیاستدان کے گھر سے کتنے ارب کرپشن کے برآمد ہوئے قائد اختلاف خورشید شاہ نے کیا ہے کہ ہم کچھ نہیں کرسکتے کیونکہ ٹھیکے کسی اور کے حکم پر دئیے جاتے ہیں قوم کو احتساب کے نام پر ٹرک کی بتی کے پیچھے لگادیا جاتا ہے جس طرح ٹرک نہیں روکتا اسکی منز ل نہیں ہوتی اسطرح ہر روز نئی کہانی میڈیا پر لائی جاتی ہے لیکن عمل نہیں کیا جاتا اگر کرپشن ختم کرنی ہے تو دھڑے بازی ختم کی جائے تاکہ پاکستان سر سبز ہو سکے ورنہ نئی کہانی ایسے ہی چلتی رہے گی جسے 1947سے لیکر آج تک عوام کو یہ نہیں سنا کہ اب احتساب کون کرئے گا عوام کی امید جنرل راحیل شریف پر تھی اب اس کی طرف سے بھی ماند پڑھ رہی ہے کیونکہ جس ملک میں آئین سے مذاق کیا جائے گرفتاری کا ڈرامہ رچا کر چھوڑا جائے اور ملزم گرفتار ہو بڑے ہسپتالوں کے اےئر کنڈیشن وارڈ کو محل نما بنا کر اسکو رہائش دی جائے احتساب کہاہے کرپٹ لوگوں کو پکڑنا اتنا مشکل نہیں اب تو کلاس فور ملازم بھی کروڑوں کے مالک ہیں کوئی نہیں پوچھتا کہ تم کل سپاہی بھرتی ہوئے یا پٹواری یہ محل کہاں سے آیا بڑے لوگوں کو پکڑنا ہی مشکل ہے اسلئے یہ جمہوریت کا داؤیلہ کرنے والے کرپشن کو ختم نہیں کرسکتے کیونکہ ان کا دامن اگر صاف خور نہیں وہ حکومت بچا تے ہیں اور اپنا اقتدا ر صرف شورداؤیلہ ان کا متصلہ بن گیا اور عوام کو بیوقوف بنایا جارہا ہے اصل احتساب تب ہوگا جب طاقت کے ناجائز استعمال کو روکا جائے یہ طاقت کا استعمال ہی ہوتا ہے جس سے کرپشن پروان چڑھتی ہے اسکو خفیہ رکھا جاتا اگر ظاہر ہوجائے تو تفشیش تبدیل کر دی جاتی ہے اور تفشیشی غائب ہوجاتا ہے میڈیا کا منہ بند کر دیا جاتا ہے۔ ملک میں صرف آرمی اور رینجر اگر چاہیے تو یہ عمل جو احتساب کا شروع ہے مکمل ہوسکتا ہے ورنہ کوئی ادارہ نہیں کرسکتا کیونکہ نیب بھی یہ لیس نظر آرہی ہے جو قانون پہلے ہے کریشن ختم کرنیکا اس پر عمل کیا جائے اور مکمل چالان بنا کر ثبوتوں کے ساتھ پیش کیا جائے اور عدالتوں میں بیٹھے عادل صر ف خوفِ خدا کریں اور ظالم ڈاکو اپنے انجام کوپہنچ سکتے ہیں اور ملک کا ہر آدمی سکون کی زندگی گزار سکتا ہے ورنہ ہر آنے والا اک ڈرامہ کر کے اپنی حکومت کا ٹائم پورا کرئے گا اور پھر غیر ممالک میں اپنے محلات بنا کر سکون کی زندگی گذارے گا اور غریب کے بچے ہمیشہ کی طرح ایسے تعلیم حاصل کر کے بہ روزگار رہیں گے اور حکومتی پنڈتوں کے روز کے نعرے سن سن کر خودکشیان کریں گے اور اپنے بچوں کو کئی بہانے بنا کر قتل کریں گے لیکن پتہ نہیں کب ملک کو چلانے اور بچانے والا آئے گا ۔