counter easy hit

سبق سکھا دیا گیا ، پاک فوج اور آئی ایس آئی پر گرجنے والے شیروں نے غرانا بھی چھوڑ دیا

لاہور (ویب ڈیسک) 2019 کی بے چاری، 18ویں آئینی ترمیم ہے جو چارہ گروں کے گھیرے میں آ گئی ہے۔ ایسے ہی جیسے رضیہ غنڈوں کے گھیرے میں آئی تھی۔ ہر چارہ گر اس ترمیم کی رفوگری کا محافظ نکلا۔ لیکن ذرا ٹھہریے! کیا موجودہ حکومت کے پاس آئین میں ترمیم کرنے کیلئےنامور سیاستدان اور کالم نگار بابر اعوان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔پارلیمانی نمبرز موجود ہیں۔ اس کا جواب ہے… نہیں۔ عمران خان کی حکومت پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں میں سادہ اکثریت رکھتی ہے جبکہ سینیٹ میں اسے یہ سہولت بھی حاصل نہیں۔ اس لیے معروضی حالات میں یہ تو طے ہے کہ وفاقی حکومت، وفاقی پارلیمان کے ذریعے 18ویں آئینی ترمیم کو ختم کر سکتی ہے‘ نہ ہی اس میں کوئی ترمیم۔ جس کا لازمی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ 18ویں آئینی ترمیم کو پارلیمنٹ کے اندر سے کوئی خطرہ نہیں۔ اس تناظر میں اگلا سوال یہ ہوا کہ جس حملے کو روکنے کیلئے اپوزیشن تیاری کر رہی ہے‘ اور ابھی کل ہی جس کی کمک قومی میڈیا سے بھی مانگی گئی۔ وہ حملہ کہاں سے آرہا ہے۔ حکومت کی جانب سے یا اپوزیشن کی طرف سے۔ ہاں 2 ادارے اور بھی ہیں۔ ایک آئینی اور دوسرا فورم ہے قانونی۔ سپریم کورٹ سے 18ویں آئینی ترمیم کو کوئی خطرہ نہیں ہو سکتا۔ عدالتِ عظمیٰ آئین کی تشریح تو کر سکتی ہے۔ آئین میں ترمیم کا اختیار اسے حاصل نہیں۔ اس لیے 18ویں آئینی ترمیم کی تنسیخ کا عدالتی چانس زیرو ہے۔ یہ اصول 18ویں آئینی ترمیم کو چیلنج کرنے والی مختلف آئینی پٹیشنز میں طے ہوا۔ بعد ازاں فوجی عدالتوں کے حوالے سے دائر آئینی درخواستوں پر یہی اصولِ قانون دہرایا گیا۔اسی تسلسل میں دوسرے نمبر پر آتا ہے قانونی ادارہ۔ نیشنل اکائونٹ ایبلٹی بیورو۔ جس کے پاس معاشی جرائم اور وائٹ کالر کرائمز کے حوالے سے تو اختیارات بلا شبہ ہیں‘ مگر آئینی ترمیم یہ ادارہ بھی نہیں کر سکتا‘ بلکہ اسے تو کسی قانون کی تشریح تک کرنے کا اختیار نہیں۔ آئینی ترمیم کُجا، ایں کُجا؟ پھر یقیناً لے دے کے ایک ہی سناریو بچتا ہے۔ وہی سناریو جس میں باپ بیٹی نے خلائی مخلوق کا نعرہ لگایا تھا۔ اور کرپشن کے گرفتارِ اعلی نے اس پہ مفاہمت کی طرح لگائی۔ کہا: میں کسی خلائی مخلوق کو نہیں جانتا۔ اس جملے پر یقیناً پرانے جی ایچ کیو کے قدیمی گیٹ کیپروں نے ضرور قہقہے مارے ہوں گے۔ بالکل ویسے ہی قہقہے جیسے اینٹ سے اینٹ بجا دینے کے 100 فیصد سچے اعلان پر لگے۔ ‘میں NRO نہیں لوں گا‘ والی بڑھک پر بھی۔ یا ‘ہم غلیل والوں کے ساتھ نہیں ہیں‘ والے بیان پر۔ ارے تفصیل چھوڑ دیجیے۔ کیا لوہے کا چنا کافی نہیںہے۔ لہٰذا فوج اور آئی ایس آئی پر گرجنے والے اب غُرّانے سے بھی کتراتے ہیں‘ چاہے تخلیہ ہی کیوں نہ ہو۔بات ہو رہی تھی بے چاری آئین میں کی گئی 18ویں ترمیم کی‘ جس کے چارہ گر کہتے ہیں:ہم سڑکوں پر جا کر اسے بچائیں گے۔ 18ویں آئینی ترمیم چھیڑی گئی تو کچھ نہیں بچے گا۔ ہم 18ویں آئینی ترمیم کو لانگ مارچ کرکے بچا لیں گے۔ لیکن 18ویں ترمیم کے چارہ گروں سے بھری ہوئی اومنی بس میں کوئی ایک بھی رجّلِ رشید ایسا نہیں جو ایک سادہ سی بات کی وضاحت کر دے۔ یہی کہ آخر 18ویں آئینی ترمیم کو خطرہ کس سے ہے؟ اس پر مجھے پنڈی کے ایک کامیاب وکیل صاحب یاد آتے ہیں۔ موصوف شعبۂ وکالت میں کامیاب تھے اور ساتھ ساتھ حقوقِ زَن آشوئی کے ماہر بھی۔ جس کا ثبوت شہر کے مختلف علاقوں میں ان کی زوجیت میں ساکن پذیر 3 عدد بیویاں تھیں‘ جیسا کہ ہر دیہاتی سماج میں ہوتا ہے۔ ان کی پہلی بیگم ان کے اپنے خاندان میں سے تھیں۔ ان کی اپنی فرسٹ کزن۔ غربت کے زمانے کی اس بیوی کے ہاتھ میں دو آتشہ لذّت تھی۔ ایک ہانڈی روٹی چلانے کیلئے۔ دوسری بیلن، چمٹے اور کڑچھ کے ذریعے وکیل صاحب کے مزاج کی درستی کی خاطر۔ اس مَست الَست وکیل نے دوسری 2 بیویوں کے فون نمبرز پر چوہدری صاحب سینئر اور چوہدری صاحب جونیئر کا فرضی نام لکھ رکھا تھا۔ ایک صبح سویرے فون کی گھنٹی بجی۔وکیل صاحب باتھ روم میں تھے۔ خاندانی بیگم نے مجبوراً فون اٹینڈ کر لیا۔ وکیل صاحب باہر آئے‘ بیگم انتظار میں کھڑی تھیں۔پوچھا: کس کا فون تھا۔بیگم بولیں: سینئر چوہدری صاحب کا‘ اور پھر وکیل صاحب لوہے کا چنا ہو گئے۔ لوہے کا چنا احتساب کے توے پر پہنچے تو ”پُھلا‘‘ بن جاتا ہے۔ شاید اسی لیے اومنی بس کا کوئی چارہ گر نام لے کر چنا بننے کو تیار نہیں۔ایک اور مسلمہ آئینی حقیقت یوں ہے۔ کوئی پارلیمنٹ اپنے بنائے ہوئے آئین میں طے شدہ طریقے اور منظور شدہ اکثریت سے آئین میں ترمیم کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ 1973 کے آئینِ پاکستان میں اس اختیار اور طریقۂ کار پر مبنی ایک نہیں دو آرٹیکلز موجود ہیں‘ لیکن اس اختیار پر صرف ایک حد قائم ہے‘ جس کا تعلق بنیادی انسانی حقوق سے ہے۔ پاکستانی پارلیمان بھی اسی پابندی کے تابع ہے۔ آئین کے چیپٹر نمبر ایک میں گارنٹی شدہ بنیادی آئینی حقوق کو نہ کوئی سلبّ کر سکتا اور نہ ہی آئین سے حذفّ۔ یہ راز اب کوئی راز نہیں۔ سب اہلِ گلستاں جان چُکے ہیں کہ چارہ گروں کی اومنی بس کی اصل منزل بے چاری 18ویں آئینی ترمیم ہرگز، ہرگز نہیں۔ یہ تو بس کرائے کے ہاکروں کا شور ہے۔ اصل خواہش یا ضرورت کی منزل ہے‘ افہام سے تفہیم تک۔ ڈیل سے وہیل تک اور ڈھیل سے ریلیز تک کی۔ جس اہلِ دل کو اس پر یقین نہیں‘ وہ دل کے مرض کے علاج کیلئے دیسی گھی میں تَلے ہوئے سموسے اور فرائیڈ کباب کھا کر دیکھ لے۔لاہوریے بتاتے ہیں کہ آج کل سروسز ہسپتال کے وی آئی پی وارڈ میں یہ سموسہ کباب علاج چھایا ہوا ہے۔ پنجاب حکومت کو چاہیے کہ وہ دل کے مریضوں کے دل کی شریانیں کھولنے کا یہ نادر نسخہ سارے کارڈیک سینٹرز اور کارڈیالوجی کے ہر وارڈ اور تمام ہسپتالوں میں مفت مہیا کر دے۔ بلکہ کارڈیالوجی ایمرجنسی وارڈ کے دروازے پر ایک طرف سموسہ سٹال اور دوسری سائیڈ پر فرائیڈ کباب سٹال لگا دیے جائیں تاکہ دل کا اصل مرض شریانوں کی اومنی بس سے اُتر جائے۔ 18ویں آئینی ترمیم کا دفاعی لشکر NA-91 سرگودھا سے بھی غائب پایا گیا۔ جہاں ٹی وی ٹاک گرو 3 کے مقابلے میں 11 ہزار ووٹوں سے شکست کھا گئے۔ ہے ناں بے چاری جمہوریت سے سخت زیادتی۔ شکر ہے کچھ زیادتیاں کم ہوئیں۔ آلِ شریف سینہ چاکانِ چمن وطن کی محبت نے مے فیئر میں اکٹھے کر دیے۔ رات ایک لندنی صحافی کہہ رہے تھے: بڑے شریف کے دونوں شریف اور چھوٹے شریف کے دونوں فرزندانِ ارجمند مال و منال ٹھِکانے لگانے کے درپے ہیں۔ جو جائیدادیں بِک جائیں وہی غنیمت۔ ایسی ہی ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات کیلئے سیانے کہہ گئے: چمڑی جائے دمڑی نہ جائے۔ بچائو دمڑی، نام لو بے چاری 18ویں آئینی ترمیم کا۔ بیت چکے ہیں ستر سال/ گونگا ماضی اندھا حال ۔۔۔ اُجڑے پنچھی ٹوٹی ڈال/ پھیلے ہیں اَن جانے جال