counter easy hit

بلیو پاسپورٹ کی بندر بانٹ

لاہور (ویب ڈیسک) پاکستانی پاسپورٹ دنیا میں اعتبار کیوں کھو بیٹھا ہے‘ محترم کیوں نہیں رہا۔ 1970 سے پہلے پاکستانی پاسپورٹ کا حصول اتنا آسان نہیں تھا۔ بہت چھان بین کے بعد پاسپورٹ ملتا تھا۔ سب سے پہلے 1960 کی دہائی میں میرپور آزاد کشمیر کے لوگ انگلینڈ گئے۔ ان میں اکثریت اُن لوگوں کی تھی نامور کالم نگار جاوید حفیظ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ جن کی زمین منگلا ڈیم میں آ گئی تھی۔ ادھر انگلینڈ میں فیکٹریاں محنتی لیبر کے انتظار میں تھیں۔ ہمارے ہاں سے انگلینڈ جانے والوں میں سے کچھ لوگ سفید ان پڑھ تھے لیکن یہ لوگ بہت محنتی بھی تھی اسی لیے 1970 تک برطانیہ میں پاکستان کا امیج ٹھیک رہا۔ 1973 کی عرب اسرائیل جنگ کے فوراً بعد تیل کی عالمی قیمت کئی گنا بڑھ گئی۔ خلیجی ممالک میں ترقی کا عمل تیزی سے شروع ہوا۔ پٹرول کے ڈالروں سے سڑکیں اور انفراسٹرکچر کے پروجیکٹ ہر طرف بننے لگے۔ ادھر حکومت پاکستان نے فیصلہ کیا کہ پاسپورٹ فراخدلی سے ایشو کیے جائیں۔ اس زمانے کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ میں سیفٹی فیچر بہت کم تھے‘ لہٰذا ہاتھ کی صفائی دکھانے والے آسانی سے فورجری کر لیتے تھے۔ میں سعودی عرب میں سات سال رہا ہوں۔ وہاں حج اور عمرہ کے لیے جانے والے پاکستانیوں میں سے چند ایک وہیں رہ کر کام کرنے لگے تھے یعنی اوور سٹے Over Stay کے مرتکب ہوتے تھے۔ سعودی حکومت کو وقتاً فوقتاً انہیں ڈی پورٹ کرنا پڑتا تھا۔ 1973 تک مڈل ایسٹ میں یہ تاثر عام تھا کہ پاکستانی یا ڈاکٹر ہوتا ہے یا انجینئر۔جب لاکھوں کی تعداد میں مزدور پاکستان سے گئے تو یہ بھرم بھی جاتا رہا۔مزدوری کرنے میں میری نظر میں کوئی قباحت نہیں بشرطیکہ ایمانداری سے کی جائے۔ اگر مزدور باہر جا کر اپنے ملک کی عزت کا خیال رکھے تو وہ ملک کا نام روشن کر سکتا ہے جیسا کہ نیو یارک میں پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور نے کیا تھا‘ جب اُس نے اپنے پیسنجر کا ڈالروں سے بھرا ہوا بٹوہ خود اُسے تلاش کر کے واپس کیا تھا۔ مگر مڈل ایسٹ میں یار لوگوں نے اس سے برعکس بھی بہت کام کیے جس سے ملک کا امیج بھی خراب ہوا اور گرین پاسپورٹ کی قدر و منزلت کو بھی دھچکا لگا۔ شکر ہے کہ پلاسٹک کا ڈیجیٹل شناختی کارڈ اور مشین ریڈ ایبل پاسپورٹ آنے سے فورجری بڑی حد تک رک گئی ہے‘ لیکن اس سے پہلے ہماری شہرت کو نقصان پہنچ چکا تھا۔1980 اور 1990 کی دہائی میں افغان‘ بنگلہ دیشی اور برمی باشندوں نے بے شمار پاکستانی پاسپورٹ حاصل کیے اور اس کی بڑی وجہ ہمارے پاسپورٹ کے دفتروں میں وسیع پیمانے پر ہونے والی کرپشن تھی۔ سعودی عرب میں منشیات سمگل کرنے کی سزا موت ہے۔ اکثر یہ کام افغان شہری کرتے تھے‘ جن کے پاس پاسپورٹ پاکستانی ہوتا تھا۔جب اخباروں میں خبر چھپی تھی تو بدنامی پاکستان کی ہوتی تھی۔ مکہ مکرمہ میں آج بھی ہزاروں برمی مسلمان مختصر مدت کے پاکستانی پاسپورٹ رکھتے ہیں جو انہیں جنرل ضیا الحق کے زمانے میں ملے تھے۔ یونان میں ہزاروں پاکستانی ایسے تھے جو جان ہتھیلی پر رکھ کر غیر قانونی طورپر داخل ہوئے۔ یونان میں داخل ہونے سے پہلے یہ لوگ اپنے پاسپورٹ بحیرئہ روم میں پھینک دیتے تھے۔ انڈین اور افغان نیشنل بھی یہی کام کرتے تھے۔ یہ پندرہ سال پہلے کی بات ہے۔ آج یہی کام شامی اور لیبیا والے کرتے ہیں۔ ہر پاسپورٹ پر ہمارے زمانے میں افسر کی مہر اور دستخط ہوتے تھے۔ میں نے خود ہزاروں پاسپورٹ سائن کئے ہوں گے‘ مگر پوری جانچ پڑتال کے بعد۔ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ جن افسروں نے افغان یا بنگلہ دیشی شہریوں کو پاکستانی پاسپورٹ ایشو کیے‘ کیا کبھی ان کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی ہوئی۔ مئی 2014 میں اس وقت کے وزیر اطلاعات پرویز رشید نے علی الاعلان کہا کہ پیپلز پارٹی کے زمانے میں بااثر لوگوں نے اپنی گرل فرینڈز کو بلیو پاسپورٹ ایشو کیے۔ یاد رہے کہ بلیو پاسپورٹ آفیشل کاموں کے لیے ہے اور اس پاسپورٹ پر کئی ممالک میں ویزا فری انٹری ممکن ہے۔ پیپلز پارٹی کے وزیر داخلہ کی طرف سے پرویز رشید کے الزام کی تردید آج تک نظر نہیں آئی۔ 9/11 کے بعد پاکستان کا جو امیج اجاگر ہوا وہ سب جانتے ہیں۔ ممبئی کے 2008 کے واقعات کے بعد انڈیا نے پوری دنیا کو ڈھول بجا کر بتایا کہ پاکستان دہشت گردوں کے نرسری ہے۔ انسانی سمگلنگ کا مسئلہ بھی عرصے سے چل رہا، اور یہاں بھی وطن عزیز کی بہت بدنامی ہوئی ہے۔ میں یقین سے کہہ رہا ہوں کہ پاکستانی اتنا بد نہیں جتنا بد نام ہے اور پاکستانی پاسپورٹ کی بے توقیری کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ چند گندی مچھلیوں نے پورے تالاب کو خراب کر دیا ہے۔