counter easy hit

جمعۂ آخر ماہ ِرمضاں ہے افضل

روزے اس بار 29 ہوں گے یا 30, یہ ایسا معاملہ ہے کہ رمضان کے آخری روزے تک چلتا ہی رہے گا، ماہرین کہتے ہیں اگر گزشتہ دو ماہ کے چاند مسلسل 29 کے ہوں تو آنے والا مہینہ 30 کا ہوتا ہے، لیکن پاکستان میں چونکہ رجب 30، شعبان 29 کا رہا تو اس حساب سے رمضان 30 کا بنتا ہے۔ اسی حساب کتاب کو دیکھیں تو اس رمضان ہمیں مل سکتے ہیں 5 جمعۃ المبارک۔

محکمہ موسمیات نے پیش گوئی کی ہے کہ سائنسی لحاظ سے 29 رمضان کو شوال کا چاند نظر آنے کے امکانات کم ہیں۔

ماہرین فلکیات کے مطابق پاکستان میں یکم شوال المکرم کا چاند 15 جون کو نظر آنے کا غالب امکان ہے اس لیے عید الفطر 16 جون کو منائی جائے گی۔

لیکن کچھ دانشمندوں کا کہنا ہے کہ دوماہ میں جب ایک جیسی تاریخوں کے چاند ہو سکتے ہیں، تو شعبان کے بعد رمضان بھی 29 دنوں کا ہوگا، اور ویسے بھی اس بارسعودی عرب کے ساتھ ماہ ِ صیام کا آغاز کیا گیا ہے تو عید بھی ان ہی کے ساتھ منائیں گے۔

خیر جو بھی ہو ہمیں توجمعہ عزیز ہے، اور اگر جمعہ رمضان کا ہو تو وارے نیارے۔ بھلا وہ کیسے پیارے؟

ماہِ مقدسہ میں ہر اچھے کام کا ثواب ستر گنا ہو جاتا ہے اور اگر رمضان 30 دن کا ہوجائے نیکی کے لیے ایک روز اور وہ بھی جمعے کا تو بہت ہی اچھا ہے۔

اب ذرابات ہوجائے جمعہ کی، امام سہیلی نے الروض الانف میں فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جد اعلیٰ کعب بن لوی رضی اللہ عنہ پہلے بزرگ ہیں جنہوں نے یوم عروبہ (جمعہ) کو لوگوں کو جمع کیا۔ ۔ ”عروبہ” کو ”جمعہ” کا نام اسلام نے دیا۔ سیدنا کعب رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے یوم عروبہ کا نام یوم جمعہ رکھا۔

اللہ تبارک و تعالی ٰ نے زمین و آسمان کو بنانے کا آغاز جمعےکے روز ہی کیا۔ حضرت اوس بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تمہارے دنوں میں افضل دن جمعہ کا ہے۔ اسی میں آدم علیہ السلام کی پیدائش اور اسی میں آپ کی وفات ہوئی۔ اسی میں صور پھونکا جائے گا۔ اسی میں دل دہلا دینے والی آواز بلند ہوگی جس سے ہر ذی روح مر جائے گا۔

اور اسی میں ایک ساعت ایسی بابرکت و سعادت ہے جس میں بندہ جو بھی مانگے اسے ملتا ہے بشرطیکہ حرام کا سوال نہ ہو اور اسی میں قیامت قائم ہوگی۔ تمام مقرر فرشتے، آسمان، زمین، ہوا، پہاڑ اور سمندر جمعہ کے دن سے ڈرتے ہیں۔ ” (ابن ماجہ، احمد)

حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اَکْثِرُوَا الصَّلٰوةَ عَلَیَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَاِنَّه، مَشْهُوْدٌ يَشْهَدُهُ الْمَلٰئِکَةُ وَاِنَّ اَحَدًا لَمْ يُصَلِّ عَلَیَّ اِلَّاعُرِضَتْ عَلَیَّ صَلٰوته، حَتّٰی يَفْرُغَ مِنْهَا قَالَ قُلْتُ وَبَعْدِ الْمَوْتِ؟ قَالَ اَللّٰهُ حَرَّمَ عَلَی الْاَرْضِ اَنْ تَاکُلَ اجْسَادَ الْاَنْبِيَاء وَنَبِیُّ اللّٰهِ حَیٌّ يُرْزَقُ.

”مجھ پر جمعہ کے دن بہت زیادہ درود (وسلام) پڑھا کرو! بے شک اس میں شمولیت کے لئے فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور کوئی بھی آدمی جب مجھ پر درود (وسلام) پڑھتا رہتا ہے اس کا درود (وسلام) مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس سے فارغ ہو۔

راوی کہتے ہیں میں نے عرض کی وفات کے بعد بھی فرمایا,

ان الله حرم علی الارض اجساد الانبياء.

بے شک اللہ پاک نے زمین پر نبیوں کے جسم حرام کردیئے۔ سو اللہ کے نبی زندہ ہیں۔ انہیں رزق ملتا ہے”۔ (ابن ماجہ)

ویسے تو تمام دن اور تمام راتیں اﷲ تعالیٰ ہی نے بنائی ہیں اور وہی ان دنوں اور راتوں کا مالک بھی ہے۔ ابولبابہ بن عبدالمنذر سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”جمعے کا دن ﷲ تعالیٰ کے نزدیک عید الفطر اور عیدالاضحیٰ کے ایام سے بھی بڑھ کر فضیلت کا حامل ہے۔ اسی وجہ سے اسے ”سیّدالایّام” یعنی تمام دنوں کا سردار کہا گیا ہے۔ احادیث شریف میں جمعۃ المبارک کے خصوصی فضائل آئے ہیں۔

سورۃ الجمعہ کے آخری رکوع میں مسلمانوں کو جمعہ کی ادائیگی پر زور دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ’ تمام کاروبار چھوڑ کر جمعہ کی ادائیگی کے لئے چلے آؤ اور جمعہ ادا کرنے کے بعد جا کر اپنا کاروبار کرو’۔

اس دن کی اصل روح کے مطابق اپنے عقائد اور شعائر کی درستی کر لی جائے تو پوری انسانیت فیض یاب ہو سکتی ہے۔

رمضان المبارک کا مہینہ اپنی برکتوں اور فضیلتوں کو سمیٹے ہمارے درمیان موجود ہے اور اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ مسلم امہ اس ماہ مبارک کے آخری عشرے میں اپنے رب کے حضور زیادہ سے زیادہ عبادات بجا لانے میں مصروف ہیں۔

آخری عشرے کی طاق راتیں شب قدر کہلاتی ہیں یعنی ان راتوں میں اللہ کی کتاب قرآن کریم جو پیغمبر اکرمؐ کے سینہ پر نازل ہوئی، یہ قرآن کی نزول کی راتیں شمار ہوتی ہیں، ان راتوں میں پوری دنیا میں مسلمان رات بھر اللہ کی عبادات میں مصروف رہتے ہیں، اسی طرح انہی آخری ایام میں آنے والے یوم ِ جمعہ کوعام زبان میں”جمعۃ الوداع” کہتے ہیں۔

جو فضلیت اور مرتبت رمضان المبارک کے آخری جمعۃ المبارک کو حاصل ہے وہ کسی اور دن کو حاصل نہیں۔ جمعۃ الوداع نور علٰی نور اور قرآن العیدین ہے، جو مسلمان کی عظمت و شوکت، ہیبت و جلالت کا عظیم مظہر ہے۔

جمعۂ آخر ماہِ رمضاں ہے افضل

یوں تو جس وقت میں ہو بذل و نوال اچھا ہے۔

جمعتہ الوداع اس لحاظ سے بھی بڑا اہم ہے کہ یہ جمعہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں آتا ہے، جسے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی حدیث کے مطابق جہنم سے آزادی کا عشرہ قرار دیا گیا ہے۔

رمضان المبارک میں جہاں نوافل کا ثواب فرضوں کے برابر ہوجاتا ہے اور فرائض کا ثواب ستر گنا کردیا جاتا ہے، وہاں اس ماہ مقدس کے جمعہ کا ثواب بھی بہت زیادہ بڑھا دیا جاتا ہے، جمعتہ الوداع کو دیگر ایام سے اس لحاظ سے انفرادیت حاصل ہے کہ اس کے بعد مسلمانوں کو عیدالفطر کی شکل میں ایک بہت بڑا انعام ملتا ہے۔

جمعۃ الوداع یعنی رمضان المبارک کی رخصتی کا پیغام دینے والا جمعہ ہم سے یہ کہتا ہے کہ ہم اپنے اعمال اور کردار کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ ہم نے اس ماہ مبارک میں کہاں، کس کس مقام پر کون سی غلطی کی اور اپنے خالق و مالک کی نافرمانی کی، یعنی اپنا مکمل احتساب کرنے کے بعد ﷲ تعالیٰ سے اپنی کوتاہیوں کی معافی مانگیں اور اس کے حضور سجدہ ریز ہو کر یہ دعا کریں کہ وہ اس ماہ مبارک اور جمعۃ الوداع کے صدقے میں ہماری ٹوٹی پھوٹی عبادات کو قبول فرمائے اور آئندہ کی زندگی میں صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔