counter easy hit

امت مسلمہ کے ہیرو کی زندگی کے آخری چند گھنٹوں کا احوال

The last couple of hours of life of the Muslim Ummah

لاہور (انتخاب : شیر سلطان ملک ) 26 دسمبر 1782ء سے لے کر 4 مئی 1799ء کو شہادت تک ٹیپو سلطان کی زندگی جہد مسلسل سے عبارت رہی۔ اگر کوئی حکیم الامت علامہ محمد اقبال کے مردِ مومن کو مجسم صورت میں دیکھنا چاہے تو وہ ٹیپو سلطان کو دیکھ لے۔ علامہ محمد اقبال کے نزدیک نامور مضمون نگار شاہد رشید روزنامہ نوائے وقت میں اپنے ایک خصوصی مضمون میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔امامت یا حکمرانی کے لئے صداقت‘ عدالت اور شجاعت کے اوصاف ضروری ہیں۔ ٹیپو سلطان میں یہ تینوں اوصاف مجسم ہوچکے تھے۔ وہ جذبۂ حب الوطنی اور شوقِ شہادت سے سرشار تھے۔ ان کی صبح کا آغاز نماز فجر اور تلاوت قرآن مجید سے ہوتا اور رات سونے سے قبل غسل کرتے اور مختلف اوراد و وظائف پڑھتے۔ انہوں نے سرنگا پٹم میں ایک انتہائی خوبصورت اور پر شکوہ ’’مسجد اعلیٰ‘‘ تعمیر کرائی۔ 1790ء میں عید الفطر کے دن اس میں پہلی نماز پڑھنے کا وقت آیا تو اس موقع پر اپنے وقت کے جید مشائخ عظام‘ علمائے کرام اور زاہد و عابد موجود تھے۔ ٹیپو سلطان کی تمنّا تھی کہ اس افتتاحی نماز کی امامت کوئی ایسی بزرگ شخصیت کرے جس کی کوئی فرض نماز کبھی قضاء نہ ہوئی ہوتاہم کوئی آگے نہ آیا۔ چنانچہ ٹیپو سلطان کو امامت کی سعادت خود حاصل کرنا پڑی جس سے ان کے اعلیٰ درجہ کے باعمل مسلمان ہونے کا پتہ چلتا ہے۔ٹیپو سلطان کو اس حقیقت کا کماحقہ‘ ادراک تھا کہ انگریز سامراج پورے ہندوستان پر قابض ہونا چاہتا ہے تا کہ یہاں کا مال و دولت لوٹ سکے۔ وہ ایک انتہائی زیرک حکمران تھا‘ لہٰذا ہندوستان کی ہر ریاست کو انگریزوں کے خلاف اتحاد کی دعوت دی مگر ان ریاستوں کے مفاد پرست حکمران ٹیپو سلطان کی دور اندیشی کو سمجھنے سے قاصر رہے۔ دوسری جانب انگریزوں نے بھی اپنی روایتی پالیسی ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ پر عمل کرتے ہوئے بعض ریاستی حکمرانوں کو باور کرایا کہ ٹیپو سلطان توسیع پسندی کا خواہش مند ہے۔ عاقبت نااندیش ریاستی حکمران یہ بے بنیاد الزام سن کر بھڑک اٹھے۔ یہ حکمران ٹیپو سلطان کی حب الوطنی اور بصیرت کو سمجھ جاتے تو آج ہندوستان کی تاریخ مختلف ہوتی۔ اسی طرح ٹیپو سلطان نے سفارت کاری کے ذریعے سلطنتِ عثمانیہ اور دیگر ممالک سے بھی انگریزوں کے خلاف مدد لینے کی کوشش کی مگر ان کی کوششیں کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکیں۔ معرکے پر معرکے سر کرنے والے سلطان کی زندگی کا فیصلہ کن معرکہ فروری 1799ء کے آخر میں شروع ہوتا ہے جب جنرل ہیرس کی قیادت میں 21 ہزار‘ نظام حیدر آباد کے 16 ہزار اور جنرل سٹورٹ کے ماتحت 7 ہزار سپاہی میسور پر حملہ کرنے کے لئے چل پڑے۔ دراصل 1798ء میں جب لارڈ ویلزلی نے ہندوستان کے گورنر جنرل کا منصب سنبھالا تو اس نے سب سے پہلے یہاں کے سیاسی حالات کا بغور جائزہ لیا اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ماسوائے میسور کے ہندوستان کی بقایا تمام ریاستیں باہمی اختلافات اور اندرونی انتشار کے باعث روبہ زوال ہیں۔ پورے ہندوستان کو برطانیہ کے زیر نگیں لانے میں اگر کوئی رکاوٹ ہے تو وہ صرف اور صرف ٹیپو سلطان ہی ہے۔ چنانچہ سب سے پہلے اس نے ٹیپو سلطان کے بیرونی روابط ختم کرنے کی منصوبہ بندی کی۔ اس کے تحت فرانس کے فرمانروا نپولین بوناپارٹ کے بحری بیڑہ کو بحیرۂ روم میں غرق کر دیا گیا تا کہ حسبِ وعدہ فرانسیسی افواج ٹیپو سلطان کی مدد کے لئے ہندوستان نہ پہنچ سکیں۔ سلطنتِ عثمانیہ کا خلیفہ سلطان سلیم تو پہلے ہی ٹیپو سلطان کو انگریزوں کے خلاف نہ لڑنے کا مشورہ دے چکا تھا۔ ٹیپو سلطان سے ہمدردی رکھنے والی متعدد ریاستیں خود اپنا دفاع کرنے میں مصروف تھیں کجا کہ ٹیپو کی مدد کے لئے آتیں۔ لے دے کے مرہٹے اور نظام آف حیدرآباد رہ جاتے تھے۔ چنانچہ لارڈ ویلز لی نے ان پر کام شروع کر دیا۔ 22 اکتوبر 1798ء کو انگریزوں اور نظام حیدرآباد کے درمیان ایک معاہدہ طے پا گیا جس کی بدولت نظام حیدرآباد کی طرف سے ٹیپو سلطان کے خلاف انگریزوں کی مدد کو یقینی بنا لیا گیا۔ اس معاہدہ کی رو سے نظام انگریزوں کا باجگزار بن گیا۔ جہاں تک مرہٹوں کا تعلق ہے‘ انگریزوں نے انہیں ایک سابقہ معاہدہ کے تحت عملی طور پر غیر موثر کر دیا۔ لارڈ ویلزلی کو جب اس امر کا یقین ہو گیا کہ اب ٹیپو سلطان کو کسی طرف سے کوئی مدد نہیں مل سکتی تو وہ جنگ کے بہانے تلاش کرنے لگا کیونکہ انگریزوں کے حلیف بھی بلا وجہ ٹیپو سلطان سے جنگ کرنے کے لئے تیار نہ تھے۔اس دوران انگریزوں نے ٹیپو سلطان کی حکومت کے کچھ ملت فروش وزراء سے بھی ساز باز کر لی اور ان سے یہ عہد لے لیا کہ وہ انگریز افواج کے حملے کے وقت ٹیپو سلطان سے غداری اور انگریزوں سے وفاداری کا مکروہ کھیل کھیلیں گے۔ دوسری جانب لارڈ ویلزلی نے اپنے بیانات اور خطوط سے ٹیپو سلطان کو باور کرایا کہ انگریز ان سے اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں اور اس سے جنگ کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے تاہم یہ محض ایک چال تھی جس کا مقصد ٹیپو سلطان کو اپنی جنگی تیاریوں اور حملے کے ارادوں کے متعلق بے خبر رکھنا تھا۔ جب حملے کی تیاری مکمل ہو چکی تو لارڈ ویلزلی نے ٹیپو سلطان کو مصالحت اور جنگ سے بچنے کیلئے توہین آمیز شرائط پر مبنی ایک خط ارسال کیا۔ شیر دل ٹیپو سلطان کے نزدیک ایسی ذلت آمیز شرائط قبول کرنا درحقیقت انگریزوں کی غلامی کے مترادف تھا۔اس نے ان شرائط کو مسترد کر کے انگریزوں کا میدان جنگ میں مقابلہ کرنے کا جرأت مندانہ فیصلہ کیا۔ اس معرکۂ حق و باطل کے دوران جہاں ٹیپو سلطان اور اس کے جاں نثاروں نے ہر قدم پر جرأت ایمانی کا مظاہرہ کیا‘ وہاں ملک و ملت کے غداروں نے قدم قدم پر ٹیپو سلطان کو دھوکہ دیا اور بغیر کسی مزاحمت کے انگریزوں کے لئے سرنگا پٹم پہنچنے کی راہ ہموار کی۔ ان غداروں میں میر صادق‘ میر معین الدین ‘ میر قمر الدین‘ میر قاسم علی‘ میر غلام علی لنگڑا اور دیوان پورنیا شامل تھے۔ ان غداروں کی معاونت کے باعث انگریزوں اور ان کی اتحادی افواج نے سرنگا پٹم کا محاصرہ کر لیا۔ تب ٹیپو سلطان کو بھی یقین آگیا کہ اس کے وزیر اور افسر خاصی بڑی تعداد میں دشمن سے ملی بھگت کر چکے ہیں۔ تب آپ نے اپنی فوج میں شامل فرانسیسی افسران سے مشاورت کی۔ فرانسیسی دستہ کے کمانڈر جنرل موسی سیپو نے ٹیپو سلطان سے کہا کہ ’’ان حالات میں آپ کا یہاں موجود رہنا مناسب نہیں۔ بہتر ہو گا کہ آپ نقدی و ہیرے جواہرات سمیٹ کر مع اہل و عیال راتوں رات یہاں سے نکل کر چتل ورگ کا رخ کریں اور قلعہ کی حفاظت ہم پر چھوڑ دیں۔ ہم آپ کی طرف سے انگریزوں سے خود نمٹ لیں گے تاہم اگر ہم پر اعتماد نہ ہو تو ہمیں انگریزوں کے حوالے کر دیں کیونکہ ہمارے آپ کے ساتھ فوجی تعاون کی وجہ سے ہی انگریز آپ کے دشمن ہیں۔ جب ہم ان کی گرفت میں ہوں گے تو ان کا جوش ٹھنڈا پڑ جائے گا اور وہ آپ سے صلح کے لئے گفتگو پر تیار ہو جائیں گے۔‘‘ سلطان فرانسیسی فوجیوں کی وفاداری‘ احسان شناسی اور مصیبت کی اس گھڑی میں جذبۂ ایثار و قربانی سے بے حد متاثر ہوا اور کہا کہ ’’میں تم جیسے وفاداروں کو دشمن کے حوالے کیسے کر سکتا ہوں۔ مجھے یہ تو گوارا ہے کہ میری سلطنت چلی جائے لیکن میں تمہیں دشمن کے حوالے کرنے کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتا۔ ‘‘4 مئی کی صبح ٹیپو سلطان نے نماز فجر مسجدِ اعلیٰ میں ادا کی۔ نماز کے بعد ان کے پرائیویٹ سیکرٹری میر حبیب اللہ نے عرض کیا کہ وقت کا تقاضا ہے کہ حضور جانِ عزیز پر رحم فرمائیں اور اپنے شہزادوں کی یتیمی و اسیری کا تصور کریں۔ دوسرے الفاظ میں وہ یہ کہنا چاہتا تھا کہ دشمنوں سے صلح کر لیں۔ سلطان نے جواب دیا کہ ہم سالوں سے اس سلطنتِ خداداد کو جو ہماری رعایا بالخصوص مسلمانوں کی ملکیت ہے‘ بچانے کی فکر کر رہے ہیں لیکن وزراء و افسرانِ سلطنت ہی در پردہ اس کی تباہی کے درپے ہیں۔ انسان کو صرف ایک دفعہ موت آتی ہے‘ اس سے ڈرنا لاحاصل ہے۔ اس کی کوئی اہمیت نہیں کہ وہ کب آئے اور کہاں آئے۔ میں اپنی ذات کو مع اپنی اولاد کے دینِ محمدی علی صاحبھا الصلوۃ و السلام پر نثار کرنے کا فیصلہ کر چکا ہوں۔ یہ سن کر میر حبیب اﷲ خاموش ہو گیا۔دوسری طرف غدّارانِ ملک و ملت کے تعاون سے انگریز اپنے ناپاک منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تیار ہو چکے تھے۔ ملت فروشوں کے ذریعے انہیں سلطان کے عزائم اور تیاریوں کی پل پل کی خبریں مل رہی تھیں۔ حقیقت تو یہ تھی کہ انگریزوں کو اپنی فوج سے زیادہ ٹیپو سلطان کے ضمیر فروش وزیروں مشیروں پر زیادہ بھروسہ تھا جو ملتِ اسلامیہ کے اس بطلِ جلیل کی پیٹھ میں چپکے سے خنجر گھونپ چکے تھے۔ ٹیپو سلطان اس آخری معرکہ کے لیے اپنی تیاریوں کا جائزہ لے رہا تھا کہ چند ہندو نجومیوں نے اس کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ آج کا دن آپ کے لئے کچھ اچھا معلوم نہیں ہو رہا۔ ٹیپو سلطان اس بات پر ایمان رکھتا تھا کہ مالکِ کائنات نے کسی دن یا رات میں بذات خود کوئی خرابی نہیں رکھی۔ اچھا یا برا صرف اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ہوتا ہے۔ ٹیپو سلطان نے امکانی مصائب کو ٹالنے کی خاطر حدیثِ پاک پر عمل کرتے ہوئے فقراء و مساکین میں صدقات و خیرات تقسیم کئے اور تاریخِ حریت میں اپنے خونِ پاک سے ایک نیا باب رقم کرنے کے لئے تیار ہو گیا۔ انگریزوں نے منصوبے کے مطابق جنرل بیرڈ کی قیادت میں سرنگا پٹم کے قلعہ پر کئی اطراف سے حملہ کر دیا۔ قلعہ کی دیوار کے ایک حصہ میں دشمن پہلے ہی شگاف ڈال چکا تھا جس کی حفاظت پر متعین دستہ کو عین حملے کے وقت تنخواہیں تقسیم کرنے کے بہانے میر صادق اور پورنیا نے ہٹا دیا اور معین الدین نے پہلے سے کی گئی ملی بھگت کے عین مطابق سفید رومال لہرا کر انگریز فوج کو مذکورہ شگاف خالی ہونے کی اطلاع کر دی۔ چنانچہ بغیر کسی مزاحمت کے انگریز فوج قلعہ میں داخل ہو گئی۔ ٹیپو سلطان کی فوج کے ایک غدار سپاہی میر قاسم علی نے اس موقع پر انگریز فوج کی رہنمائی کی۔ اس مرحلے پر ٹیپو سلطان کے جانثار سپاہیوں نے شدید مزاحمت کی اور ایک ایک کر کے دین و وطن کی حرمت پر قربان ہوتے گئے۔ 4 مئی کی دوپہر جب سورج اپنے جوبن پر تھا‘ ٹیپو سلطان قلعہ کی مختلف فصیلوں کا معائنہ کرنے کے بعد آم کے ایک گھنے درخت کے سائے تلے بیٹھا تھا کہ اس کے لئے کھانا لایا گیا۔ اس نے بسم اللہ پڑھ کر پہلا نوالہ ہی لیا تھا کہ ایک سپاہی نے آکر اطلاع دی کہ انگریز فوج قلعہ میں داخل ہو گئی ہے۔ اس معرکے میں ٹیپو سلطان شہادت کے رتبہ پر فائز ہونے اور اپنے معبودِ حقیقی کے روبرو سرخرو ہونے کے لئے پہلے سے تیار تھا۔ چنانچہ اپنے رفقاء سے کہا کہ لگتا ہے کہ اب ہم کچھ ہی دیر کے مہمان ہیں اور ہاتھ دھوئے بغیر اُٹھ کھڑے ہوئے‘ اپنا گھوڑا ’’طائوس‘‘ منگوایا‘ تلوار اور دونالی بندوق تھام کر دشمن کی طرف چل پڑے۔ چلتے وقت راستہ میں انہیں اپنے کئی ضمیر فروش وزراء ملے جن میں میر صادق بھی تھا۔ اس سے قبل کہ وہ کچھ کہتا‘ ٹیپو سلطان نے اسے کہا کہ ’’ایسی بات نہیں کہ ہم تمہاری غداری سے آگاہ نہیں ہیں۔ تم اپنی اس بے وفائی کا مزہ جلد ہی چکھو گے اور تمہاری آئندہ نسلیں تمہارے ان سیاہ کارناموں کی نحوست سے ایک ایک دانہ کی محتاج ہوں گی۔‘‘ غدارِ ملک و ملت میر صادق نے فوراً انگریزوں کو اطلاع بھیجی کہ ٹیپو سلطان محل سے نکل کر قلعہ کے دہلی دروازے کے قریب پہنچ رہا ہے۔ ٹیپو سلطان برق رفتاری سے دہلی دروازہ پہنچا اور کافی دیر تک انگریز فوج کا مقابلہ کرتا رہا۔ جب دشمنوں کی تعداد بڑھنے لگی تو جنگی حکمت عملی کے تحت ٹیپو سلطان نے ڈوڈی دروازے سے واپس شہر میں داخل ہونے کی کوشش کی لیکن اس نازک ترین لمحہ میں غدار میر صادق نے دروازہ بند کر دیا اور کمک لانے کے بہانے جانے لگا۔ ٹیپو سلطان کا ایک وفادار سپاہی اس کی غداری کو بھانپ گیا اور اسے کہا کہ سلطان کو دشمن کے منہ میں دے کر خود کہاں جا رہے ہو۔ یہ کہہ کر اس جانثار سپاہی نے تلوار کے ایک ہی وار میں اس غدار کا سر تن سے جدا کر دیا۔ اس نمک حرام کی لاش چار دن تک اسی جگہ پڑی گلتی سڑتی رہی۔ لاش سے اٹھنے والے تعفن سے تنگ آکر چند لوگوں نے اسے زمین میں دفن کر دیا۔ اس کی قبر کے پاس سے جب کوئی گزرتا تھا تو نفرت کے باعث اس پر تھوک دیتا۔ غداروں کا انجام ایسا ہی ہوتا ہے۔قلعہ کے دروازے بند ہونے کے باعث ٹیپو سلطان تین اطراف سے محصور ہو گیا تھا۔ ہر جانب سے اس پر گولیوں کی بوچھاڑ ہو رہی تھی لیکن وہ مردِ مجاہد دشمنوں کے سامنے ڈٹا ہوا تھا۔ نماز مغرب کے قریب سلطان کے جانثاروں اور انگریز فوج کے درمیان گھمسان کی جنگ جاری تھی۔ ٹیپو کی رعایا پروری کی بدولت مسلمانوں کے ساتھ ہندو بھی ان سے شدید محبت کرتے تھے۔ چنانچہ اس کے وفادار مسلمان اور ہندو مردو خواتین پروانہ وار اپنے محبوب سلطان پر جان وار رہے تھے۔ خود سلطان کے جسم پر بھی متعدد زخم لگ چکے تھے۔ اس موقع پر ٹیپو سلطان کے ایک نو مسلم خادم غلام راجہ خان نے انہیں آواز دے کر کہا کہ حضور! اگر آپ اب بھی اپنی جان کی حفاظت کی خاطر خود کو دشمن کے حوالے کر دیں تو وہ آپ کے رتبے کا لحاظ کر کے آپ کی جان بخش دیں گے۔ یہ بات سن کر ٹیپو سلطان جلال میں آ گئے ا اور غصّہ سے کانپتے ہوئے باآواز بلند ایک تاریخی جملہ کہا: ’’کیا تم پاگل ہو گئے ہو۔ خاموش رہو۔ میرے نزدیک ’’شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔‘‘ اس کے کچھ ہی دیر بعد سلطان کے گھوڑے کی پیٹھ میں گولی لگ گئی اور وہ زمین پر گر گیا۔ اس بناء پر ٹیپو سلطان بھی زمین پر آ رہے اور ان کی دستار سر سے اتر گئی۔ اس پر بھی سلطان نے ہمت نہ ہاری اور پیدل لڑتے لڑتے کئی انگریز افسروں اور سپاہیوں کو جہنم رسید کر دیا۔ زخموں سے بہنے والے خون کے باعث سلطان پر نقاہت طاری ہو رہی تھی مگر اس شیر دل مجاہد کا حوصلہ بلند تھا اور وہ دشمنوں سے مسلسل نبرد آزما تھا۔ ظہر سے مغرب تک دشمنوں سے خونیں معرکہ آرائی کے باعث ٹیپو سلطان شدید پیاس محسوس کر رہا تھا  مگر پانی پینے کا موقع نہ مل رہا تھا۔ لڑائی کے لئے روانگی کے وقت ان کے حکم پر غلام راجہ خان نے پانی کی ایک چھوٹی مشک بھی ساتھ رکھ لی تھی مگر درپردہ وہ ظالم بھی انگریزوں سے مل چکا تھا‘ چنانچہ جب بھی ٹیپو سلطان نے اس سے پانی طلب کیا‘ اس نے اپنے محسن و مربیّ کو پانی نہ دیا۔ باالفاظ دیگر وہاں میدانِ کربلا کی تاریخ دہرائی جا رہی تھی۔ سلطان کے جسم میں مزید کئی گولیاں پیوست ہو چکی تھیں‘ وہ شدید زخمی تھا مگر آخری سانس تک دشمنوں سے برسر پیکار رہنے کا عزم کر چکا تھا۔ کسی غدار نے سلطان کی طرف اشارہ کر کے انگریز افسروں کو بتایا کہ ان کا اصل ہدف یہاں موجود ہے‘ لہٰذا انہوں نے فوج کی ساری طاقت اس طرف جھونک دی۔ قلعہ کی فصیل سے بھی گولیوں کی بارش برسنے لگی جن میں سے ایک گولی سلطان کے سینے میں پیوست ہو گئی۔ وہ نیم جان سا ہو کر زمین پر گر پڑا۔ لالچ کا مارا ایک انگریز سپاہی سمجھا کہ سلطان کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر چکی ہے۔ اس نے ٹیپو سلطان کی کمر سے ہیروں سے مزین انتہائی قیمتی شمشیر بند اتارنے کی کوشش کی تو سلطان نے اپنی تلوار سے اس پر وار کر دیا مگر وہ اپنی بندوق کو ڈھال بنا کر بچ گیا تاہم اس کی بندوق دو ٹکڑے ہو گئی۔ سلطان نے دوبارہ وار کیا تو قریب موجود ایک دوسرا گورا سپاہی جہنم رسید ہو گیا۔ زخموں سے چور مگر جرأت ایمانی سے سرشار ٹیپو سلطان نے اس حالت میں بھی کئی انگریزوں کو تہہ تیغ کر دیا مگر دُور سے دشمن کے ایک سپاہی نے بندوق سے تاک کر نشانہ لگایا جس کی گولی ٹیپو سلطان کی کنپٹی پر لگی اور چند لمحوں میں یہ آفتابِ حُرّیت اور فخرِ ملّت اپنے معبودِ حقیقی سے جا ملا۔ ملعون غلام راجہ خان نے انگریزوں کو شہید سلطان کے جسد خاکی کی نشاندہی کرائی۔ جنرل ہیرس نے ٹیپو سلطان کے جسدِ خاکی کو دیکھا تو خوشی سے نعرہ لگایا:’’آج سے ہندوستان ہمارا ہے۔‘‘درحقیقت اسلامیان ہِند کا یہ قابلِ فخر سپوت دشمنوں سے زیادہ ’’بے وفا اپنوں‘‘ میں گھراہوا تھا۔ جب اسے ان اپنوں کی غدّاری کا یقین ہو گیا‘ تب بھی دل برداشتہ ہونے کی بجائے اللہ جل جلالہ‘ پر بھروسہ کرتے ہوئے میدانِ جنگ میں اُتر گیا اور حضرت امام حسینؓ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنی جان قربان کر دی۔ انہوں نے انگریزوں کی غلامی کا طوق پہننے کی بجائے شہادت کو گلے لگانا قبول کر لیا۔ٹیپو سلطان نے ایک اعلیٰ مقصد کے تحت زندگی بسر کی اور اسی اعلیٰ مقصد کیلئے جان دے دی۔ اس جنگ میں ٹیپو سلطان کے کم و بیش بارہ ہزار سپاہیوں نے حرمتِ وطن کی خاطر اپنی جانیں نثار کر دی تھیں جن میں سینکڑوں مسلمان اور ہندو بہادر مرد و عورتیں شامل تھیں۔ اس کے مقابلے میں انگریز فوج کے صرف ڈیڑھ ہزارسپاہی حرام کی موت مرے کیونکہ انگریزوں نے یہ جنگ عسکری قوت کے بل بوتے کم اور غدار سازشیوں کے بل بوتے زیادہ لڑی تھی۔ ٹیپو سلطان کی شہادت کا دن 4 مئی 1799ء بمطابق 28 ذوالقعدہ 1213 ہجری تھا۔ شہادت کے وقت ٹیپو سلطان کی عمر 48 سال 5 ماہ اور 14 دن تھی۔ وہ بظاہر تو دنیا سے پردہ فرما گئے مگر ان کی روح آج بھی ہر اُس مسلمان مجاہد کے تنِ خاکی میں موجزن ہے جو دینِ اسلام کی سربلندی اور مادرِ وطن کی آزادی کے تحفظ کے لئے مصروفِ جہاد ہے۔ٹیپو سلطان کی آخری آرام گاہ ’’گنبد سلطانی‘‘ کہلاتی ہے۔ یہ سرنگا پٹم کے لال باغ میں واقع ہے۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website