counter easy hit

سی ٹی ڈی پولیس نے سہولت کار کو گرفتار کر لیا

The CTD police arrested the facilitatorلاہور: سی ٹی ڈی پولیس نے بھاٹی گیٹ کے علاقہ میں آپریشن کرتے ہوئے داتا دربار خودکش حملہ میں ملوث سہولت کار کو گرفتار کر لیا جبکہ داتا دربار کے باہر خود کو دھماکے سے اڑانے والے بمبار افغان شہری نکلا ، شناخت صادق اﷲ کے نام سے ہوگئی۔

سی ٹی ڈی پولیس کے مطابق افغان شہری طور خم کے راستے پاکستان داخل ہوا،داتا دربار کے باہر خود کش حملہ کرنے والے کی شناخت صادق اﷲ کے نام سے ہوئی جو افغان شہری ہے ، صادق اﷲ 6مئی کو طورخم کے راستے ویزہ حاصل کرکے پاکستان آیا۔ بمبار صادق اﷲ کوطیب اﷲ افغان بارڈر سے لاہور لایا جومہمند ایجنسی کارہائشی ہے خود کش حملہ آور نے سہولت کارمحسن خان کے پاس بھاٹی گیٹ رہائش اختیار کی اور آٹھ مئی کی صبح خود کو دربار کے قریب کھڑی ایلیٹ فورس کی گاڑی کے پاس اڑا لیا۔سی ٹی ڈی حکام کے مطابق گرفتار سہولت کاروں سے خود کش جیکٹ اور بارودی مواد بھی برآمد کیا گیا ہے ۔سہولت کار کا تعلق شبقدر ضلع چارسدہ سے ہے ،طیب اﷲ عرف راقی تاحال گرفتار نہیں ہو سکا، مزید تحقیقات جاری ہیں۔ دوسری جانب انحہ داتا دربار میں مشکوک قرار دیئے گئے لڑکے کی جانب سے اپنی بے گناہی کی وڈیو جاری کئے جانے کے بعد واقعے کی کی تفتیش مزید الجھ گئی ہے۔

سانحہ داتا دربار کے حوالے سے 2 مشکوک لڑکوں کی فوٹیجز سامنے آنے کے بعد انہیں خودکش حملہ آور کے سہولت کار قرار دیا جارہا تھا۔ جس کے جواب میں ایک ایمن آباد گوجرانوالہ کے رہائشی لڑکے نے اپنی ویڈیو جاری کردی، جس میں اس نے کہا کہ وہ صرف داتا صاحب دعا مانگنے کے لیے گیا تھا لیکن اسی اثنا میں دھماکا ہوگیا اور بھگڈر مچ گئی، اس کے حوالے سے بغیر ثبوت فوٹیج چلائی جا رہی ہے اور دہشت گرد کہا جا رہا ہے جو کہ زیادتی ہے، اس معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ سانحے سے قبل کی فوٹیجز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ نوجوان داتا صاحب کے آس پاس سے صبح سے گھوم پھر رہا تھا اور مبینہ طور پر ریکی کر رہا تھا ۔ اس حوالے سے جو فوٹیج دکھائی گئی وہ واقعے سے تقریباً 3 گھنٹے پہلے کی ہے، جس میں لڑکے کو داتا دربار کے آس پاس دیکھا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف ترجمان سی ٹی ڈی کا کہنا ہے کہ سی ٹی ڈی نے داتا دربار دھماکے کے حوالے سے ابھی تک کوئی پریس ریلز جاری نہیں کی جس میں کسی شخص کو مشتبہ یا مشکوک قرار دیا گیا ہو،داتا درباد دھماکے کی تفتیش سائنسی بنیادوں پر ہورہی ہے، کئی کیسز کی تفتیش مشکل اور طویل ہوتی ہے اس لیے معاملے کو الجھانے سے گریز کیا جائے۔