counter easy hit

آئندہ سینما مالکان چھلانگ لگانے سے پہلے دو بار سوچیں گے!

آخر کار وہی ہوا جو ہونا تھا۔ پاکستانی سینیما مالکان نے19 دسمبر سے دوبارہ انڈین فلموں کی نمائش کا سلسلہ شروع کرنے کا اعلان کردیا۔

The cinema will think twice time before leap!

The cinema will think twice time before leap!

_93039723_036919170-1 _93039725_03935d8b-7295-42e1-bfa5-29ad0cf9ca41 _93039727_8e20d85b-c93c-4065-85a6-b6ab11d99e52لیکن اس تین ماہ کی خودساختہ بندش نے پاکستانی فلمی صنعت میں کیا گُل کھلائے، اسے نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ اس بندش کے نفع و نقصان کا حساب کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ آئندہ ایسے قدم اُٹھانے سے پہلے شاید کوئی ذرا سوچ بھی لے۔

پچھلے تین ماہ کے دوران، یعنی جب سے انڈین فلموں کی نمائش پر پابندی لگائی گئی، سینیما گھروں کی آمدنی تقریباً 60 فیصد گر گئی تھی۔ اگر پچھلے سال سے موازنہ کیا جائے تو مالکان کے اپنے مطابق سینیما گھروں میں آنے والوں کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوئی اور تین مہینوں میں سینما ہالز کو تقریباً 60 کروڑ روپے کا نقصان ہوا تھا۔

اس کے علاوہ صنعتی ذرائع کے مطابق صرف نومبر میں 1700 لوگوں کی ملازمت ختم کردی گئی تھی اور 25 ہزار خاندان جن کا تعلق سینما گھروں کے بزنس سے تھا، اُن کی روزی روٹی خطرے میں پڑی ہوئی تھی۔ پاکستان میں کئی ایسے سینیما گھر پروجیکٹ جو زیرِتکمیل تھے، اُن پر کام روک دیا گیا تھا۔ کچھ ایسے بھی پروجیکٹ تھے جن کے سرمایہ کاروں نے اُن پر پیسے لگانے کا خیال ترک کردیا تھا۔

ظاہر ہے، جب دکھانے کے لیے نہ فلمیں ہوں اور نہ ہی لوگ سینیما گھروں کا رُخ کریں، تو پھر کوئی پاگل ہی ہوگا جو نئے سینما گھر بنانے پر اپنا سرمایہ لگائے گا۔

لیکن یہ صرف سینما گھروں یا اُن کے سرمایہ کاروں کا مسئلہ نہیں ہے۔ سینما گھروں میں فلم بینوں کی گھٹتی تعداد کا اثر اُن چند پاکستانی فلموں پر بھی پڑا ہے جو پچھلے تین مہینوں میں ریلیز ہوئی ہیں۔ اُن سب کا باکس آفس کا بزنس توقعات سے کم رہا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ انڈین فلموں پر پابندی سے پہلے پاکستانی فلمساز عموماً اس بات کا رونا روتے تھے کہ بالی وُڈ فلموں کی وجہ سے اُن کو اُتنے سکرین نہیں مل پاتے جتنے اُن کو ملنے چاہیے تھے۔ لیکن جب کوئی مقابلہ باقی نہیں رہا تو یہ رونا تھا کہ اُن کی فلموں کو بالی وُڈ کی فلموں کا ’اوورفلو‘ نہیں مل رہا تھا – یعنی وہ لوگ جن کو پہلے انڈین فلم کا ٹکٹ نہیں ملتا تھا وہ عموماً کسی پاکستانی فلم کا ٹکٹ لے لیتے تھے، لیکن اب وہ لوگ سینیما آنے سے ہی گریز کر رہے تھے۔

پاکستان میں اور خاص کر سوشل میڈیا پر ہر طرح کے ‘فوری ایکسپرٹ’ مل جاتے ہیں، ایسے لوگ جنھیں نہ فلمی صنعت کی شد بد ہے نہ معاشیات کی، اُن سے اکثر سننے کو ملتا تھا کہ یہ ایک بڑا سنہری موقع ہے پاکستانی فلموں کے لیے اگر وہ اپنی کوالٹی بہتر بنالیں۔ یہ بات اُن کی سمجھ سے بالاتر تھی کہ فلموں کا معیار بہتر بنانے کے لیے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے اور جب باکس آفس نہیں چلتا تو نہ فلموں میں سرمایہ کاری ہوتی ہے نہ نئے سینیما گھر بنتے ہیں جن کی پاکستان اور پاکستانی فلموں کو اشد ضرورت ہے۔

نئے سینما گھر چھوڑیے، جو تھوڑے بہت سینما اس وقت موجود ہیں، وہ بھی بند ہو جاتے اگر یہی معاملات کچھ دن اور چلتے رہتے۔ اس کا براہِ راست اثر آگے بننے والی فلموں پر پڑتا اور جلد ہی وہی حالات واپس آجاتے جو کچھ عرصہ پہلے تھے، یعنی پاکستانی فلمیں بننا بند ہو جاتیں۔

بات شروع ہوئی تھی سینما مالکان سے۔ جب تین مہینے پہلے انھوں نے انڈین فلموں پر پابندی کا قدم اٹھایا تھا، میں نے اور کچھ دیگر لوگوں نے اس کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا کیونکہ ہماری نظر میں یہ ایک بہت ہی خطرناک قدم تھا جس کے منفی نتائج صاف نظر آرہے تھے۔

ہمیں ڈر تھا کہ یہ فیصلہ جلدبازی میں کیا گیا ہے اور حالات قابو سے باہر ہونے کے قوی امکان تھے۔ افسوس کہ بالکل ایسا ہی ہوا۔ حالات سینما مالکان کے کنٹرول سے باہر ہو گۓ اور جو پابندی وہ اپنی طرف سے صرف چند دن کے لیے، علامتی طور پر لگانا چاہتے تھے، وہ مہینوں تک کھنچ گئی۔ جس نے اُن کا اور پوری صنعت کا بھٹہ تقریباً بیٹھا دیا اور آخر میں اُن کی حب الوطنی کی بڑکیں بھی غائب ہو گئیں اور انھیں اپنا سا مُنہ لے کر پابندی کو ختم کرنا پڑا ہے۔

اس وقت اس فیصلے کی واپسی کے محرکات یہ بھی ہیں کہ آگے دو بڑی انڈین فلمیں آرہی ہیں، ایک عامر خان کی ‘دنگل’ جو 22 دسمبر کو ریلیز ہو رہی ہے اور دوسری شاہ رُخ خان کی ‘رئیس’ جو 25 جنوری کو نمائش کے لیے پیش کی جائے گی اور جس میں پاکستانی اداکارہ ماہرہ خان بھی ہیں۔

فلمی حلقوں کا خیال ہے کہ اگر یہ دونوں فلمیں بھی پاکستانی سینماؤں میں نہ لگیں تو پھرملکی صنعت کو بہت بڑا دھچکہ لگے گا اور سینما مالکان 2017 کو بھی خیرباد کہنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

یہاں چند باتیں تو واضح ہیں۔ ایک تو یہ کہ دنیا کے اس نئے نظام میں جس میں ہر چیز آپ کو با آسانی انٹرنیٹ پر دستیاب ہے، کسی چیز کو ’بین‘ کرنا نہ صرف ناممکن ہے بلکہ ایسی امید کرنا انتہائی درجہ کی بیوقوفی ہے۔ دوسری یہ کہ پاکستان کے عوام انٹرٹینمنٹ میں حب الوطنی کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھتے۔ انھیں معیار کی فلمیں دیکھنے سے غرض ہے (اور شاید اس سے بھی زیادہ ‘چوائس’ کے حق سے غرض ہے) اور اگر وہ انڈین فلمیں ہیں، تو بھی انھیں کوئی اعتراض نہیں۔

اگر اس بیوقوفانہ تجربے کا کوئی مثبت پہلو ڈھونڈا جا سکتا ہے تو وہ یہ ہے کہ شاید آئندہ سینما مالکان چھلانگ لگانے سے پہلے دوبار سوچیں گے!

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website