counter easy hit

تبدیلی صرف ووٹ سے ممکن ہے

ارسطو، مملکت کو حکمران طبقے کی بنیاد پر تقسیم کرتے ہوئے چھ قسم کی حکومتوں کی نسبت سے مملکتوں کی درج ذیل چھ اقسام بیان کرتا ہے:

ایک شخص کی اچھی حکومت یعنی بادشاہت

ایک شخص کی بری حکومت یعنی استبدادیت

چند اشخاص کی اچھی حکومت یعنی اشرافیہ

چند اشخاص کی بری حکومت یعنی چندسری

بہت سے اشخاص کی اچھی حکومت یعنی آئینی حکومت

بہت سے افراد کی بری حکومت یعنی جمہوریت

ارسطو نے ان چھ اقسام کی نسبت سے مملکت اور حکمران طبقے کے مقاصد کے تحت مملکت کو تین اقسام میں تقسیم کیا:

ایک شخص کی جہاں حکمرانی ہو۔

چند اشخاص کے پاس سیاسی اقتدار ہو۔

بہت سے لوگوں کے پاس سیاسی اقتدار ہو۔

ارسطو کے مطابق یہ مملکتیں اچھی بھی ہوسکتی ہیں اور بری بھی۔ چندسری حکومت بنیادی طور پر خراب حکومت نہیں بلکہ یہ دولت مندوں کی حکومت ہوتی ہے جو تعداد میں کم اور اپنی نیت اور ارادے میں خود غرض ہوتے ہیں۔ ان کی خود غرضی کی وجہ سے یہ حکومت غیرمعیاری ہوتی ہے۔ جمہوریت غریبوں کی حکومت ہوتی ہے جو تعداد میں بہت زیادہ ہوتے ہیں جس کے باعث مملکتی مقاصد کا حصول ناممکن ہوجاتا ہے۔ ارسطو کے نزدیک بالخصوص اشرافیہ طرز حکومت میں شہریوں کو نیکی کے اصولوں اور اخلاقی اقدار کی بنیاد پر القابات، اعزازات، عہدے اور مراعات دی جاتی ہیں۔

چندسری حکومت محض دولت کی بنیاد پر عہدوں اور مراعات کی تقسیم کرتی ہے۔ ارسطونے بہت سے افراد کی بری حکومت کو جمہوریت کا نام دیا تھا۔ تاہم ارسطو نے ایسا مخلوط نظریہ دیا جس میں یہ ساری اقسام مل کر ایک جمہوری ریاستی نظام کے تحت چلائی جارہی ہیں۔

ان ممالک نے لاکھ خرابیوں کے باوجود اس نظام کو اپنایا، بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں بہتری لائی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ ان ممالک میں الیکشن کے بعد ان کی شفافیت پر سوالات نہیں اٹھائے جاتے اور نہ ہی قبل از وقت الیکشن کے راگ الاپے جاتے ہیں۔

ان ممالک کے برعکس ہمارے ہاں جمہوریت ایک تسلسل کے نتیجے میں نہیں بلکہ مختلف راستوں اور رہبروں کی بدولت ایوانوں میں جڑیں پکڑتی گئی اور جب ان عناصر پر انگلی اٹھائی جاتی تو ہر طرف ایک ہی آواز سنائی دیتی کہ جمہوریت خطرے سے دو چار ہے۔

ریاست بہت سے عناصر کا مجموعہ ہوتی ہے اور یہی سب مل کر ایک نظام بناتے ہیں اور اسی کے تحت متوازن ہو کر چلتے ہیں۔ کسی ایک کا توازن بھی بگڑتا ہے تو دوسرا آگے بڑھ کر اس کی جگہ لینے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ یہ قدرتی امر ہے اور قانون فطرت کا تقاضا بھی۔

جمہوریت کوئی نظام نہیں بلکہ یہ تو ایک طریقہ کار وضع کرنے کا نام ہے جس میں سیاست دان الیکشن کے عمل سے گزر کر ایوانوں میں داخل کئے جاتے ہیں تاکہ وہ فیصلہ سازی میں اپنا کردار ادا کریں اور ایسا معاشرہ تشکیل دیں جس میں طبقاتی تقسیم کو بتدریج کم کرتے ہوئے تعلیم، صحت اور معاشی سرگرمیوں کو استحکام ملے۔

تعلیمی نظام کسی بھی مملکت میں معاشرتی اور معاشی زندگی کی مختلف سمتوں کا تعین کرتا ہے۔ اگر یہ منقسم ہوگا تو طبقاتی تقسیم کے ساتھ ساتھ نوجوان نسل میں شدت پسندانہ سوچیں پیدا ہونگی۔ انسان کی جسمانی اور ذہنی نشوونما تعلیم کے ذریعے ہوتی ہے اور تعلیم کو ایسا ہونا چاہیے جس سے معاشرے کے افراد نہ صرف اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں بلکہ ایک مستحکم پاکستان کےلیے اپنا کردار بھی ادا کریں۔

اعلی اور ادنی طبقے اپنی نوعیت کے اعتبار سے اتنہا پسندی کا شکار ہوتے جائیں گے۔ معاشی ناہمواریاں، عدم مساوات کا احساس، سیاسی جانب داری، سیاسی بدعنوانیاں، نظام تعلیم اور نظام معاشرت میں مطابقت کا نہ ہونا، یہ عناصر معاشرے میں انتہا پسندانہ نظریات کا سبب بنتے ہیں۔ یہاں سے وہ مرحلہ شروع ہوتا ہے جس میں سیاست دان، حکمران اور عوام دھڑوں میں بٹنا شروع ہوتے ہیں۔

حکمران طبقات اپنے مفادات کے حصول کےلیے خود آپس میں تضادات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ادارے بھی اپنے اغراض و مقاصد سے ہٹ کر بے سمت ہو جاتے ہیں اور کسی ایک کے اتحادی بن کر اسے تحفظ فراہم کرنے لگتے ہیں۔

انسان دو ضروریات کا مجموعہ بھی ہے: اوّل مادی ضروریات اور دوم اخلاقی ضروریات۔ جب روٹی، کپڑا اور مکان اس کی دسترس میں نہیں رہتا تو پھر اخلاقیات کا دم توڑ جانا ایک فطری عمل ہے۔ منظرنامے کی تبدیلی ناگریز ہوجاتی ہے مگر انہیں سمجھ نہیں آتی، کیونکہ عوام کا اعتماد کھو چکا ہوتا ہے۔ اس کے ردعمل کے طور پر کبھی سیاہی اچھالی جاتی ہے تو کبھی جوتا دے مارا جاتا ہے۔

ہم سب کو مل کر ایک دوسرے کی تربیت کرنا ہوگی کہ تبدیلی سیاہی، جوتوں، گالم گلوچ، الزام تراشیوں سے نہیں بلکہ ووٹ سے ہی لائی جاسکتی ہے۔ سیاستدانوں کو بھی ملکی باگ ڈور سنبھالنے سے پہلے یہ جان لینا ہوگا کہ عوام کے ہاتھوں میں ہاروں کے بجائے کچھ اور بھی ہوسکتا ہے… اگر انہوں نے انہیں مایوس کیا۔