counter easy hit

پاک افغان سرحد پر بھاری لاگت سے بنے 2 جدید کراسنگ پوائنٹس کی تعمیر کو دھچکا

اسلام آباد: پاکستان نے افغانستان کی سرحد پر بھاری لاگت سے بنے 2 جدید کراسنگ پوائنٹس کی تعمیر کو دھچکا لگ گیا۔

The blow to the construction of 2 modern crossing points made of heavy cost on the Pak-Afghan borderپاکستان نے افغانستان کی سرحد کے ساتھ2 جدید چیک پوسٹوں کے تعمیراتی کام کے دائرہ کار اور ڈیزائن کو محدود کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ یہ فیصلہ منصوبے کے واحد بولی دہندہ ادارے این ایل سی کی طرف سے ابتدائی لاگت کے تخمینے سے 185 گنا زیادہ بولی دینے کے نتیجے میں کیا گیا ہے۔ فوج کے تعمیراتی ادارے این ایل سی نے چمن اور طورخم کی سرحد پر ان چوکیوں کی تعمیر کے لیے 480 ملین ڈالر کی بولی دی ہے۔

واضح رہے کہ ایشین ڈیولپمنٹ بینک جو اس منصوبے کے لیے 250 ملین ڈالر کا قرضہ فراہم کر رہا ہے، نے 168 ملین ڈالر کی رقم کا ابتدائی تخمینہ لگایا تھا۔ تخمینے سے زیادہ بولی ملنے پر سول اور فوجی قیادت نے چوکیوں کے ڈیزائن کو تبدیل کر کے صرف اہم ضرورتوں تک محدود کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ منصوبے کے دائرہ کار اور ڈیزائن میں تبدیلی کی وجہ سے اب اس کی تعمیر میں ایک سال کی تاخیر اور لاگت میں اضافے کا خدشہ ہے جبکہ پاکستان پہلے ہی اس منصوبے کے لیے حاصل کردہ قرضے کو بروقت ادا نہ کرنے کی وجہ سے 0.15 فی صد زر ضمانت ادا کر رہا ہے۔

یاد رہے کہ دسمبر 2015 میں اے ڈی بی نے پاکستان کو3 کراسنگ پوائنٹس کی تعمیر کے لیے 250 ملین ڈالر کی رقم بطور قرضہ دی تھی جن میں سے ایک چوکی بھارت سے متصل سرحد واہگہ  پر جبکہ 2 چوکیاں افغانستان کی سرحد پر چمن اور طورخم کے مقام پر بننا تھیں۔ یہ قرضہ گزشتہ سال دسمبر میں قابل واپسی ہو گیا تھا اور پاکستان اس وقت سے زرضمانت ادا کر رہا ہے۔ منصوبے کی حساس نوعیت کے پیش نظر حکومت نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی زیر قیادت خارجہ امور، دفاع، ریلوے، مواصلات اور تجارت کے وزرا پر مشتمل انٹیگریٹڈ ٹرانزٹ ٹریڈ منیجمنٹ سسٹم سٹیرنگ کمیٹی تشکیل دی تھی جو اس منصوبے کے حوالے سے فیصلہ سازی کرتی ہے۔ چوکیوں کا مقصہ سرحد کے آر پار لوگوں کی نقل و حرکت کو آسان بنانے کے ساتھ ساتھ درآمدات، برآمدات اور باہمی تجارت میں اضافہ کرنا ہے۔

این ایل سی نے ابتدائی طور پر تینوں چیک پوسٹوں کی تعمیر کا تخمینہ 251.2 ملین ڈالر لگایا تھا لیکن اب اس نے افغان سرحد کی صرف 2 چوکیوں چمن اور طورخم کے لیے 480 ملین ڈالر کا تخمینہ لگا دیا ہے۔ یہ دونوں چوکیاں افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے لیے بہت اہم ہیں کیونکہ افغانستان کے مال تجارت کی 80 فی صد سے زیادہ نقل و حمل انھی2 چیک پوسٹوں کے ذریعے ہوتی ہے۔ ادھر اے ڈی بی نے اپنے قواعد میں نرمی کرتے ہوئے این ایل سی کے  بولی دینے کی راہ ہموار کرنے کے لیے خصوصی رعایت دی تھی کیونکہ این ایل سی کے  پاس سرحدی چوکیوں اور ڈرائی پورٹس کے انتظام کا تجربہ ہے اور چوکیوں کی حساس نوعیت کے باعث یہ فیصلہ کرنا پڑا۔

دوسری جانب پراجیکٹ ڈائریکٹر محمد زبیر نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ این ایل سی اپنی بولی کم کر کے 340  ملین ڈالر تک لے آیا ہے اور نئے ڈیزائن کا جائزہ لینے کے بعد بولی کو مزید بھی کم کر دے گا۔ انھوں نے امید ظاہر کی کہ بولی کی حتمی رقم منصوبے کی مناسبت سے کافی کم ہو جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ اصل تخمینہ تصوراتی ڈیزائن کی بنیاد پر لگایا گیا تھا اور وہ تین سال پرانی بات ہے۔ محمد زبیر کا کہنا تھا کہ چوکیوں کے دائرہ کار اور ڈیزائن میں تبدیلی کے باوجود یہ موجودہ دور کی تمام ضرورتیں پوری کریں گی۔  انہوں نے امید ظاہر کی کہ طورخم کا تعمیراتی ٹھیکا آئندہ سال فروری اور چمن کا مارچ تک جاری کردیا جائے گا جبکہ واہگہ بارڈر کی چوکی پر کام کا ٹھیکا آئندہ سال جون تک دے دیا جائے گا۔