counter easy hit

قومی اسمبلی اور سینٹ میں 21 ویں آئینی ترمیمی بل کی منظوری

Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

تحریر: حبیب اللہ

قومی اسمبلی اور سینٹ نے فوجی عدالتوں کے قیام کیلئے آئین میں اکیسویں ترمیم اور آرمی ایکٹ میں ترمیم کی اتفاق رائے سے منظوری دے دی ہے۔ اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں 247ارکان جبکہ سینٹ میں 78ارکان نے ترمیم کے حق میں ووٹ دیا۔ پاس کردہ اکیسواں آئینی ترمیمی بل چار ترامیم پر مشتمل ہے جس میں دہشت گردی کی تعریف، فوجی عدالتوں کے قیام اور ان عدالتوں کی مدت کے تعین کی شقیں شامل ہیں۔21ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد قومی اسمبلی میں آرمی ایکٹ میں ترمیم کا بل 2015 پیش کیا گیا جس کی شق وار منظوری لی گئی۔

آرمی ایکٹ کی ترمیم میں کہا گیا ہے کہ کوئی شخص جو مذہب یا فرقہ کا نام استعمال کرنے والے دہشت گرد گروپ یا تنظیم کا رکن ہو، پاکستان کے خلاف ہتھیار اٹھائے یا جنگ کرے، پاکستان کی مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملہ کرے، پاکستان میںکسی شہری یا فوجی تنصیبات پر حملہ کرے، تاوان کیلئے کسی شخص کو اغوا کرے اور دھماکہ خیز موادیاخودکش جیکٹ رکھتا ہو اس کے خلاف ان عدالتوں میں کارروائی کی جائے گی۔ تاہم کسی بھی شخص پر وفاقی حکومت کی اجازت کے بغیر مقدمہ نہیں چلایا جائے گا۔ یہ ترامیم بل کے نفاذ کے دو سال تک موثر رہیں گی۔ اگر پارلیمنٹ نے اس مدت میں مزید توسیع نہ کی تو دو برس کی مدت کے بعد یہ ترامیم از خود منسوخ تصور ہوں گی۔

سانحہ پشاورجس میں دہشت گردوں نے ڈیڑھ سو سے زائد بچوں کو گولیاں برسا کر شہید کر دیا اس کے غم سے ابھی تک قوم نکل نہیں پائی ہے۔ ہر دل زخموں سے چور اور دہشت گردی کے اس عفریت سے چھٹکارا چاہتا ہے۔ پوری قوم اس ایک نکتہ پر متحد ہے۔ سیاسی وعسکری قیادت بھی اس حوالہ سے بھرپور کاوشیں کر رہی ہے مگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ قومی اسمبلی میں 21ویںآئینی ترمیم کی منظوری کے موقع پرجو جماعتیں غیر حاضر تھیں وہ بھی ایوان میں موجود ہوتیں اور پورے ملک میں اتحادویکجہتی کی فضا نظر آتی۔ اس کیلئے حکومت اور سیاسی جماعتوں کو ملکر اپنے اختلافات اور تحفظات کو دورکرنا چاہیے تھا مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہو سکا۔پاکستان اس وقت حالت جنگ میں ہے۔

ایک طرف اسلام دشمن قوتیں ملک کو اندرونی انتشار اورخلفشار سے دوچار کرنے کے درپے ہیں۔ بم دھماکوں اور خودکش حملوں کو پروان چڑھانے کی کوششیں کی جارہی ہیں تو دوسری جانب بھارت نے سرحدوں پر جنگ کا ماحول پیدا کر رکھا ہے کبھی فلیگ میٹنگ بلاکر رینجرز کے جوانوں کو شہید کر دیا جاتا ہے تو کبھی کنٹرول لائن کے قریبی دیہاتوں پر گولہ باری کر کے عام شہریوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ وہ جارحیت بھی خود کر رہا ہے اور الزام تراشیاں بھی پاکستان کے خلاف کی جارہی ہیں۔ بھارت سرکارایسی مذموم حرکتیں کر کے پاکستان پر دبائودبائو بڑھانے اور سیاسی و عسکری قیادت نے دہشت گردی کے خلاف جو جنگ شروع کر رکھی ہے

اس سے توجہ ہٹانے کی کوششیں کر رہی ہے۔ نریندر مودی کی کابینہ میں موجود ہندوتوا کے علمبردارسیاسی وعسکری اہلکار وطن عزیز پاکستان کو نقصانات سے دوچار کرنے کی گہری منصوبہ بندیاں کر رہے ہیں۔ ہمیں ان سازشوں کو سمجھتے ہوئے انتہائی حکمت اور دانشمندی سے ناکام بنانا اور ملک میں اتحادویکجہتی کی فضا برقرار رکھنا ہے’ تبھی ہم دہشت گردی کے خلاف جاری کوششیں کامیاب بنا سکتے ہیں۔قومی اسمبلی سے پاس کردہ اکیسویں آئینی ترمیم کے بعد کسی بھی عدالت سے دہشت گردوں کے خلاف مقدمہ ملٹری کورٹس کو منتقل کیا جاسکے گا۔اس ترمیم کا بنیادی مقصد آرمی ایکٹ میں ان ترامیم کو دستوری تحفظ فراہم کرنا ہے جن کے تحت دہشت گردی اور شدت پسندی کی روک تھام کیلئے ملک میں تیز رفتار سماعت کیلئے فوجی عدالتیں قائم کی جائیں گی۔

سینٹ میں اس بل کو پیش کرنے سے قبل وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے خطاب میں کہاکہ ملک میں امن کے قیام اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے آئین میں ترمیم کی اشد ضرورت تھی۔ اب سنگین جرائم میں ملوث دہشتگردوں کے مقدمات کی سماعت جلد ہو سکے گی۔ ہم نے اپنا قومی فریضہ ادا کیا اور متحد ہو کر قدم اٹھایا۔ بیس نکاتی قومی لائحہ عمل پر فوری عملدرآمد شروع ہو جانا چاہئے۔اس سے ان شاء اللہ دہشتگردی کے خاتمہ میں مدد ملے گی۔انہوںنے کہاکہ غیر معمولی حالات میں غیر معمولی فیصلے کرنا پڑتے ہیں۔بہت سے دہشت گرد تفتیشی مراکز میں ہیں جن کے خلاف مقدمات بہتر انداز میں چلائے جاسکیں گے۔ان دنوں میڈیا میں اس بات پر بھی بحث جاری ہے

اس آئینی بل کی منظوری کے بعد کالعدم تنظیموں کو نئے نام سے کام کرنے کی اجازت نہیں ہو گی ۔اگرچہ چوہدری نثار اپنی پریس کانفرنس میں یہ بات واضح کر چکے ہیں کہ اس سے مراد وہ کالعدم تنظیمیں ہیں جنہوںنے پاکستان کے خلاف ہتھیار اٹھا رکھے ہیں۔ وہ تنظیمیں جنہیں امریکہ یا کوئی اور ملک کالعدم سمجھتا ہے اور پاکستان کی عدالتیں انہیں ملک میں دعوتی، تنظیمی اور ریلیف سرگرمیاں جاری رکھنے کے فیصلے دے چکی ہیں’ وہ کسی طور اس سے مراد نہیں ہیں اور نہ ہی پاکستان میں ان پر کوئی پابندی ہے لیکن اس کے باوجود مغرب کے تنخواہ داربعض لوگ میڈیا کے ذریعے اسلام و پاکستان کے دفاع اور دکھی انسانیت کی خدمت کیلئے بھرپور کردار ادا کرنے والی جماعتوں کے خلاف بھی بے بنیاد پروپیگنڈا کرکے اپنے بیرونی آقائوں کو خوش کرنے میں مصروف ہیں۔ محب وطن دانشوروں کی یہ رائے بالکل درست ہے

ہمیں یہاں یہ فرق خاص طورپر ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کہ وہ جماعتیں جو پاکستان میں مسلح جتھے بنا کر اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خلاف برسرپیکار ہیں اور انہیں کالعدم قرار دیا گیا ہے’ ان کے خلاف سخت کاروائی ہونی چاہیے ۔ کلمہ طیبہ کے نام پر حاصل کئے گئے ملک میں جہاداور شریعت کے نام پر خون خرابہ کو کسی طور درست قرار نہیں دیا جاسکتا اور نہ ہی اسلام اس کی اجازت دیتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی بہت ضروری ہے کہ بھارت، امریکہ یا کسی اور ملک و ادارے کی جانب سے پاکستان کی کسی محب وطن جماعت کو کالعدم قرار دینے کا مطالبہ نہ تسلیم کرناچاہیے اور نہ ان کے خلاف کسی کو جھوٹا پروپیگنڈا کر کے قومی یکجہتی کی فضا خراب کرنے کی سازشیںکرنے کی اجازت دینی چاہیے۔

بہرحال ہم سمجھتے ہیں کہ سیاسی و عسکری قیادت کی جانب سے کئے جانے والے اقدامات یقینا دہشت گردی کے خاتمہ میں مفید ثابت ہو ںگے لیکن افغانستان جہاں سے دہشت گردوں کو ہر قسم کا تعاون اور مدد حاصل ہو رہی ہے وہاں بھی ان کے نیٹ ورک کا خاتمہ کرنا بہت ضروری ہے۔ پاک افغان سرحد ی علاقوں میں قائم بھارتی قونصل خانے دہشت گردوں کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں جہاں سے انہیں تربیت دیکر پاکستان میں تخریب کاری و دہشت گردی کیلئے داخل کیا جارہا ہے۔

امریکہ اورا س کی اتحادی فورسز جو افغانستان میں بھارتی فوج کو لاکر بٹھا رہی ہیں وہ مکمل طور پر ہندوستان کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ افغان فورسز کی جانب سے محض دکھاوے اور پاکستان کو دھوکہ دینے کیلئے کنڑ وغیرہ میں دہشت گردوں کے خلاف کچھ دیر کیلئے آپریشن کا ڈھونگ رچایا گیالیکن عملی طور پر اس کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں موجود دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے خاتمہ کیلئے ہمیں افغان حکومت پر بھرپور انداز میں دبائو بڑھانااور قونصل خانوں کی آڑ میںوہاں موجود دہشت گردی کے بھارتی اڈوں کو ختم کروانا ہو گاوگرنہ اس کے بغیر آئندہ بھی اس قسم کے سانحات پر مکمل طوپر قابو پانا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔

تحریر: حبیب اللہ
برائے رابطہ: 0321-4289005