counter easy hit

کرپشن اور ہم

Dania Imtiaz

Dania Imtiaz

تحریر:دانیہ امتیاز
بدعنوانی کے بادل چار سو چھائے ہوئے ہیں،ان بادلوں نے ہماری زندگیوں میں اندھیرا کر رکھا ہے، حبس اور گھٹن کے اس ماحول میں ہر شخص کرپشن کی دہائی دیتا نظرآتا ہے،سیاستدانوں ،حکمرانوں کی کرپشن کا رونا عام ہے، لوگوں کا ماننا ہے کہ سارے کا سارا نظام ہی کرپٹ ہے، معاملات بے حدبگڑ چکے ہیں، حالات ابتر سے ابتر ہوتے چلے جارہے ہیں، ذبوں حالی بڑھتی ہی چلی جارہی ہے،ہم بہت آسانی سے اپنے اردگرد ہونے والی تمام بے قاعدگیوں کا ذمہ دار حکمرانوں ،سیاستدانوں اور میڈیا کو ٹھہرا دیتے ہیں، شائد ہم یہ بھول جاتے ہیں

اگر سارا نظام کرپٹ ہے توہم بھی اسی نظام کا حصہ ہیں،ہم خود پر نظر نہیں ڈالتے ،یا شائد ڈالنا نہیں چاہتے سڑکوں پر دھواں چھوڑتی گاڑیاں لانا، ٹریفک سگنلز کی پابندی نہ کرنا غلط نہیں؟کیا دفتروں میں چپڑاسی اور زیلی افسر کو پیسے دے کر اپنی فائل اوپر کروالینا، ہسپتال میں آیا کی مٹھی گرم کرکے اپنے نمبر سے پہلے ڈاکٹر کو دکھانا کرپشن کے مترادف نہیں، مختلف اشیاء میں ملاوٹ کرکے چیزوں کو مہنگے داموں کرکے ناجائز منافع کمانا کرپشن نہیں، ہماری نوجوان نسل بھی کرپشن کی بہت شکائت کرتی نظر آتی ہے

کیا کالج یونیورسٹی سے کلاس بینک کرکے غلط حاضری لگوانا امتحان سے قبل پیپرآئوٹ کرواناکرپشن کے زمرے میں نہیں آتا،اثرورسوخ کے بل بوتے پراور تھوڑے سے پیسے خرچ کرکے داخلہ لینا بہت عام سی بات سمجھی جاتی ہے،ہم اپنے ہر کام کو مجبوری ،ایمرجنسی کا لیبل دے کر غلط طریقوں سے سرانجام دینے کے عادی ہوچکے ہیں،جس طرح ایک عاشق اپنے محبوب کی سب برائیوں کواپنے دل میں ایک گڑھا کھود کر دفن کردیتا ہے،اسی طرح ہم بھی اپنی تمام کوتاہیوں، غلطیوں کو مجبوری کا نام دے کر صحیح اور غلط کے احساس کو اپنے دل میں ایک گڑھے کے اندر ہمیشہ کے لئے دفن کرچکے ہیں

غرض یہ کہ کرپشن صرف سیاستدان یا حکمران ہی نہیں کرتے بلکہ آپ ،میں اور ہم سب کررہے ہیں۔۔۔۔۔اور یہی تلخ حقیقت ہے،کہ ہماری زندگیاں زیادہ ترہماری ہی کی گئی کرپشن سے متاثر ہو رہی ہیں، قطرہ قطرہ کرکے دریا بنتا ہے،اور ہماری روزکی چھوٹی چھوٹی بدعنوانیاں مشکلات ومصائب کا سمندر بن کر ہماری زندگیوں میں طوفان برپا کرری ہیں،ہم اپنی غلطیوں سے نظریں چرا کر سارا الزام حکومت اور ان سے متعلقہ اداروں پر نہیں ڈال سکتے قوائد و ضوابط میں سختی نہ ہونے کا جوازبنا کر ہم غلط کاموں کوجاری نہیں رکھ سکتے

بہانے بنانے اور آنکھیں بند کرلینے سے حقیقت نہیں بدلتی،ضرورت اس امرکی ہے کہ ہم ناصرف آپنی آنکھیں کھولیں بلکہ اپنی کوتاہیوں کو بھی پہچانیں اور ان کا اقرارکریں،اپنے اپنے طورپر صحیح اور ایمانداری سے کام کرکے خوداپنا احتساب کرکے ہم اپنی زندگیوں میں آئے اس بھونچال سے چھٹکارا پا سکتے ہیں،اور پھر ہم سب ایک مضبوط طاقت بن کر حکمرانوں کی بدعنوانیاں پکڑکر انہیں سرعام سزا دلوا سکتے ہیں،مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم خود ٹھیک ہوں جب ہم اپنی اصلاح کرلینگے تومعاملات کافی حدتک خودہی بہترہوجائینگے،اور بڑے بڑے عہدوں پربیٹھے بڑی بڑی کرپشن کرنے والے لوگ ڈرکے سنبھل جائینگے، اگرنہ سنبھلے تو ہماری سچائی اور ایمانداری کی طاقت ان سے خود نمٹ لے گی۔۔۔۔۔۔۔

تحریر:دانیہ امتیاز