counter easy hit

سپین میں قیلولہ کا وقفہ ختم، لوگ خوش

Sleep

Sleep

سپین کے قائم مقام وزیر اعظم ماریانو راخوئے کی جانب سے دفتری اوقات کو شام چھ بجے تک محدود کرنے کی حالیہ تجویز سے شہری بہت خوش ہیں۔میڈرڈ کے رہائشی جیمز بیڈکوک لکھتے ہیں کہ اِس کا مطلب ہے کہ دوپہر کے وقت آرام کے لیے ملنے والا دوگھنٹے قیلولے کا وقفہ ختم ہو جائے گا، تاہم وہ جلد گھروں کو لوٹ سکیں گے۔*میڈرڈ سے تعلق رکھنے والی خاتون کرسٹینا مٹرانز کہتی ہیں کہ ’میرے گھر میں تمام افراد نظام الاوقات تبدیل کرنے کے حق میں ہیں۔ عملی طور پر میرے بچے ہفتے کے دوران اپنے والد کی شکل تک نہیں دیکھ پاتے۔‘اُن کے خاوند طبی سامان فراہم کرنے والی ایک کمپنی میں کام کرتے ہیں، جہاں اُنھیں صبح نو بجے سے شام سات بجے تک کام کرنا پڑتا ہے۔ یہ سپین کے دفاتر کا معیاری نظام الاوقات ہے، جس میں دوپہر دو بجے سے چار بجے تک کھانے کا وقفہ بھی شامل ہے۔کرسٹینا کا کہنا ہے کہ اُن کے خاوند کے دفتر اور گھر کا فاصلہ ایک گھنٹے کا ہے، جس کے باعث وہ گھر کے کھانے سے لطف اندوز ہو پاتے ہیں اور نہ ہی وقفے میں قیلولہ کرتے ہیں۔ وہ دفتر کا کام ختم کر کے رات آٹھ بجے ہی گھر لوٹتے ہیں۔’بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کمپنی حکام اُن کو گھر سے کام کرنے کی اجازت دیں۔ ہمارے بچوں کے سکول میں کوئی یقین نہیں کرتا کہ اُن کے والد بھی ہیں، کیونکہ اُنھوں نے بچوں کو کبھی سکول چھوڑا یا لیا ہے اور نہ ہی کسی تقریب میں شرکت کی ہے۔‘ایسے ملک میں جہاں بےروزگاری کی شرح 21 فیصد ہو، وہاں کمپنی حکام سے مراعات طلب کرنا مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ اِسی وجہ سے جوس لوئس کسیرو سے جیسے لوگ ایسی ترغیبات متعارف کرانا چاہتے ہیں، جس سے کمپنیاں اپنا اوقات کار تبدیل کر سکیں۔قومی کمیشن برائے ہسپانوی اوقات کار کے صدر جوس لوئس کا کہتے ہیں کہ ’لوگ کام کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ اپنی زندگیاں بھی گزارنا چاہتے ہیں۔‘اُن کے خیال میں جو کمپنی مالکان گھر سے کام کرنے اور ملازم کی مرضی سے اوقات کار کے تعین جیسی اصلاحات متعارف کراتے ہیں، اُن کو ٹیکس میں چھوٹ دینی چاہیے۔سپین میں شرح پیدائش فی خاتون 1.32 بچہ ہے، جو بہت کم ہے۔ یورپ میں یہ شرح فی خاتون 1.58 فیصد ہے۔ کسی حد تک اِس کی معاشی وجوہات بھی ہیں۔ جوس لوئس کے مطابق اس کی دیگر وجوہات بھی ہیں جیسے’لوگ بہت زیادہ تھک جاتے ہیں یہاں تک کہ جب انسانی رشتوں کے معاملات میں بھی۔‘میڈرڈ میں مارکیٹنگ کے شعبے سے منسلک خاتون کارولینا کارنے کہتی ہیں: ’میں اپنا کام چھ گھنٹے میں ختم کر سکتی ہوں لیکن لوگ میرا فون اُٹھانے کے لیے موجود تو ہوں۔‘’صبح دس بجے تک کوئی فون نہیں اُٹھاتا اور اُس کے بعد دوبارہ تقریباً دو بجے کے بعد یہی صورت ہوتی ہے۔ تو میں شام چھ سے آٹھ بجے لوگوں سے بات کرنے کے قابل ہوتی ہوں، اور اُس وقت مجھے اپنی بیٹی کے ساتھ پارک میں ہونا چاہیے۔‘